پشاور: خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس کے باعث نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن ختم کیے جانے کے باوجود خواتین اپنے کاروبار دوبارہ سے شروع کرنے میں ناکام ہیں جس سے صوبے میں خواتین کے لیے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔
پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ڈبلیو سی سی آئی) پشاور کی صدر رخسانہ نادر نے کہا ہے کہ صوبے میں سماجی اور دہشتگردی مسائل کی وجہ سے کاروباری خواتین کی تعداد پہلے ہی قلیل ہے۔
رخسانہ نادر نے شکوہٰ کرتے ہوئے کہا کہ”وفاقی حکومت کے بند کاروباروں کے لیے بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی بلز میں ریلیف پیکیج کے اعلان کے باوجود خواتین انٹرپرینیورز کو بجلی، ٹیلی فون اور دیگر بھاری بلز اداکرنا پڑے، حکومت کی جانب سے عدم دلچسپی اور لاپرواہی سے صوبے بھر میں ہزاروں خواتین ملازمین کی نوکریاں خطرے میں ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں چھوٹے کاروباروں کو کم شرح سود کے قرضے فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ “لیکن کے پی میں کاروباری خواتین کو قرضوں کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے”۔
اسی لیے صدر ڈبلیو سی سی آئی نے کہا کہ کے پی کی خواتین وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 20 لاکھ کے آسان شرائط پر مبنی قرضے فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ کورونا وائرس سے متاثرہ کاروباروں کو بغیر کسی تاخیر کے بحال کیا جا سکے۔
رخسانہ نے کہا کہ اس وقت خواتین چیمبر میں 450 رجسٹرڈ اراکین ہیں، ڈبلیو سی سی آئی نے اشیاء کو مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے آن لائن سسٹم اور اپنی اراکین کے لیے دستکاری پر کام شروع کیا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ “ہم کے پی میں تمام کاروباری خواتین کے لیے ایک جامع مالی پیکیج کے جلد سے جلد اعلان کا مطالبہ کرتی ہیں”، صوبے میں زیادہ تر خواتین بیوٹی پارلرز، بوتیک، دستکاری، جم اورتعمیری سرگرمیوں سے وابسطہ ہیں۔
اس دوران، نمائندہ پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پشاور کی کاروباری خواتین نے کہا کہ کئی سالوں سے خواتین نے معاشی ترقی کے لیے بہت سے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے جس پر حکومت اور سول سوسائٹی کی جانب سے انکے کام کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کے پی میں بہت سی خواتین مواقع کے لیے ڈبلیو سی سی آئی کی منتظر ہیں۔ “لیکن اگر کاروباری دنیا میں خواتین کے خلاف یہی امتیازی سلوک جاری رہا تو اس سے ہزاروں خاندان باعزت روزگار کمانے سے محروم ہوجائیں گے”۔
چونکہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے باعث کھوکھلی ہوکررہ گئی ہیں، یہی صورتحال صوبے کی کاروباری خواتین کا بھی ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران انکے بہت سے کاروبار تباہی کے دہانے پر تھے، کچھ خواتین کو تنخواہوں اور کرایوں کی ادائیگی کے لیے اپنی جیولری بھی بیچنا پڑی۔