لاہور: پنجاب کے دارالخلافہ لاہور کے رہائشی غلام حسین اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ رشتے داروں کے ہاں یا پھر کہیں سیرو تفریح کیلئے جانے کے لیے موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں۔
مگر جب سے انہوں نے یہ خبر سنی ہے کہ حکومت بجلی سے چلنے والی گاڑیاں متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے تب سے ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں، وہ یہ سوچ کر نہال ہیں کہ ایسا ہونے پر انہیں ہر ماہ موٹرسائیکل کے پٹرول کے لیے چار ہزار روپے خرچ نہیں کرنا پڑیں گے۔
غلام حیسن، جو کہ ایک ڈرائیور ہیں اور انکی تنخواہ 20 ہزار روپے ہے، پٹرول کے بجائے بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکل کا تصور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے انہیں کافی بچت ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ممکن ہوا تو وہ بجلی سے چلنے والی ایک کار لیں گے کیونکہ انکے بچے اب بڑے ہو رہے ہیں لہٰذا موٹر سائیکل پر سفر مشکل لگتا ہے۔
مگر انہیں ابھی اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت نےطویل انتظار کے بعد الیکٹرک موٹر وہیکلز پالیسی کی منظوری تو دے دی ہے مگر ایک تبدیلی کی وجہ سے بجلی سے بننے والی گاڑیوں کی تیاری میں کچھ وقت لگے گا۔
مذکورہ پالیسی کے ناقدین کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں تو لوگ ان گاڑیوں سے مستفید ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
نئی الیکٹرک وہیکلز پالیسی میں ٹرکوں، بسوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی تیاری کی اجازت دینے کے ساتھ انہیں بنانے والوں کے لیے کئی رعایتوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
پالیسی کے مقاصد
10 جون 2020ء کو منظور ہونے والی الیکٹرک وہیکلز پالیسی کی منظوری وزیراعظم عمران خان نے تو گزشتہ برس نومبر میں ہی دے دی تھی جس کا مقصد مومسیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانا ہے۔
حکومت اس پالیسی کے تحت اگلے پانچ سالوں میں ٹرانسپورٹ نظام میں پانچ لاکھ موٹر سائیکلیں اور رکشے جبکہ ایک لاکھ کاریں متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: موٹر سائیکلوں، رکشوں اور بھاری کمرشل گاڑیوں سے متعلق الیکٹرک وہیکل پالیسی منظور
روایتی کارساز اداروں کی جانب سے دباؤ کے باعث اس پالیسی کا رخ فی الحال بجلی سے بننے والے موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان الیکٹرک وہیکلز اینڈ پارٹس مینوفیکچورز اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شوکت قریشی کا کہنا ہے کہ پالیسی میں سے کاروں کو نکالنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا دلہے کے بغیر شادی۔
انہوں نے کہا کہ ساری دنیا اس ٹیکنالوجی کو اپنا رہی ہے کیونکہ یہ آلودگی سے پاک ہے، جتنی جلدی اسے اپنایا جائے گا اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہوگا۔
پٹرول سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والے اداروں کی نمائندہ تنظیم کے سربراہ عبدالوحید خان کا کہنا ہے کہ ہم اس پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں اور اسکی تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔
’غریب خاندانوں کو نظر انداز کردیا گیا‘
معروف رکشہ ساز ادارے سازگار انجینئرنگ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر میاں علی حمید کا کہنا ہے ان کی کمپنی رواں سال کے آخر تک بجلی سے چلنے والے رکشے بنا سکتی ہے۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ رکشے روایتی رکشوں سے مہنگے ہونگے ۔ اس وقت کمپنی کا پٹرول سے چلنے والا رکشہ ڈھائی لاکھ روپے میں دستیاب ہے جبکہ الیکٹرک رکشے چار لاکھ روپے میں دستیاب ہونگے۔
تاہم پٹرول اور مینٹی نینس، آئل اور فلٹر تبدیلی جیسے اخراجات ختم ہونے کے باعث خریداروں کے لیے یہ رکشے زیادہ مہنگے نہیں ہونگے اور وہ ایک ہی سال میں اس کی قیمت پوری کرلیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: حکومت نے پاکستان میں معیاری گاڑیوں کی تیاری کے عالمی معاہدے کی توثیق کر دی
بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے مارکیٹ میں تاخیر سے آنے کی ایک وجہ چارجنگ انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے تاہم حکومت نے پالیسی میں شہروں کے اندر اور موٹر وے پر چارجنگ سپاٹ بنانے میں سہولت دینے کا عندیہ دیا ہے۔
تاہم پاکستان الیکٹرک وہیکلز اینڈ پارٹس مینوفیکچورز اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شوکت قریشی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو بجلی سے چلنے والے موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے حوالے سے اس پریشانی سے نہیں گزرنا پڑے گا کیونکہ انہیں گھر میں آسانی سے چارج کیا جاسکے گا۔
تاہم انکا کہنا تھا بجلی سے چلنے والی کاروں سے متعلق پالیسی نہ بنانے سے کم آمدنی والے خاندان متاثر ہونگے کیونکہ بجلی سے چلنے والی کار پر منتقل ہونے سے ایندھن کی مد میں ماہانہ 25 ہزار روپے بچائے جا سکتے ہیں اور اتنی رقم کی بچت ان خاندانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے
انکا مزید کہنا تھا کہ ان گاڑیوں کا ایک بڑا فائدہ آلودگی میں کمی بھی ہے کیونکہ بجلی سے چلنے والی گاڑی پٹرول سے چلنے والی گاڑی کی نسبت فضائی آلودگی کا سبب بننےوالے مادے 65 فیصد کم خارج کرتی ہے۔