اسلام آباد: پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے حکومت کا بڑا اقدام سامنے آ گیا، اب پاکستان میں بننے والی گاڑیوں میں بھی معیاری حفاظتی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔
پرافٹ اردو کو حاصل ہونے والے دستاویزات کے مطابق پاکستان نے گاڑیوں میں حفاظتی اقدامات اور پرزہ جات کی تنصیب کے حوالے سے 1958ء میں طے پانے والے اقوام متحدہ کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
پاکستان میں یہ معاہدہ اور اس کے مندرجات 24 اپریل 2020ء سے نافذ العمل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے :
دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کاریں مہنگی کیوں ہیں؟
الیکٹرک وہیکلز پالیسی بن گئی، لیکن کیا پاکستان میں بجلی پر گاڑیاں چلانے کا منصوبہ کامیاب ہو پائے گا؟
اس سے پہلے حکومت نے نشاندہی کی تھی کہ ملک میں گاڑیوں کے بہت سے ماڈلز حفاظت کے عالمی معیار پر پورا نہیں اُترتے۔
ایسا بنیادی طور ملک میں اس حوالے سے کوئی قانون یا ریگولیشن نہ ہونے کی وجہ سے تھا مگر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت نے UNECE’s WP.29 ریگولیشن کے ساتھ آٹو ڈیویلپمنٹ پالیسی 2016-21ء متعارف کروا دی ہے۔
انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ایک اہلکار نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ یونیسیف ڈبلیو پی 29 ریگولیشن کے نفاذ کے لیے وزارت صنعت و پیداوار اور دوسرے سٹیک ہولڈرز نے کام شروع کردیا ہے۔
تاہم ذرائع نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ اس کے نفاذ کے حوالے سے وزارت صنعت و پیداوار اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وزارت صنعت و پیداوار کا ماتحت ادارہ انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا ذیلی ادارہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) اس پالیسی کے نفاذ کے حوالے سے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے بے تاب ہیں تاہم دونوں ہی ادارے اس کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ ان کے پاس اس حوالے سے لیبارٹری اور ٹیسٹنگ سینٹرز نہیں ہیں۔
ذرائع کا مزید کہا ہے اگرچہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی قانونی طور پر پیداوار کے حوالے سے معیار کا تعین کرسکتی ہے تاہم اس وقت نہ تو پی ایس کیو سی اے اور نہ ہی کوئی دوسرا ادارہ مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں کے معیار پر نظر رکھتا ہے۔
لیکن اس حوالے سے قوانین بن جانے کے بعد پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ان کے نفاذ کی ذمہ دار ہوگی۔
ایک سرکاری اہلکار کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت نے ملک میں عالمی معیار کی کاروں کی تیاری کو یقینی بنانے کے معاہدے کی توثیق تو کردی ہے مگر اس حوالے سے قوانین کا نفاذ اس کے لیے اور کاریں بنانے والوں کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔