کوویڈ-19 کے باعث عالمی ترسیلات زر میں 142 ارب ڈالر کمی کا خدشہ

2019ء میں 554 ارب ڈالر کی ترسیلات کی گئیں، رواں سال 445 ارب ڈالر رہنے کی توقع، کم اور متوسط آمدن والے دیہی علاقے متاثر ہوں گے، 50 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں: رپورٹ

624

اسلام آباد: کورونا کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر کے تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں 142 ارب ڈالر کمی کا خدشہ ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 200 ملین سے زائد تارکین وطن اپنے 800 ملین خاندانوں کو رقوم بھیجتے ہیں جن میں سے آدھی سے زیادہ رقوم دیہی علاقوں میں مقیم خاندان وصول کرتے ہیں۔

ایسے علاقوں میں غربت اور غذائی عدم تحفظ کی شرح پہلے سے ہی زیادہ ہے، ترسیلات وصول کرنے والے خاندان ان پیسوں سے اپنی خوراک، علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں۔

لیکن کووڈ۔19 کی حالیہ وبا کی وجہ سے ترسیلات زر میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کمی کا خدشہ ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں کروڑوں خاندانوں کی زندگی متاثر ہونے کا امکان ہے۔

ادھر عالمی بینک کے ایک اندازہ کے مطابق ترسیلات زر میں 2020ء کے دوران 142 ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔

عالمی بینک کے مطابق 2019ء میں 554 ارب ڈالر کی ترسیلات کی گئی تھیں لیکن رواں سال کم  اور متوسط آمدنی والے ممالک کو بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں 20 فیصد کمی کے حساب سے ترسیلات کا مجموعی حجم  445 ارب ڈالر تک کم ہو سکتا ہے۔ آمدنی میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر کے غریب اور بالخصوص دیہی علاقوں میں مقیم خاندان شدید متاثر ہوں گے۔

آئی این جی او اوکسفیم نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں مزید 50 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے کرائسسز بیورو کے مطابق عالمی سطح پر کی جانے والی ترسیلات زر دنیا کے 30 ممالک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 10 فیصد جبکہ کم اور متوسط آمدن والے کم از کم 60 ممالک کے جی ڈی پی کے 5 فیصد بھی سے زیادہ ہیں۔

اتنی بڑی رقم کے بغیر سرمایہ کاری اور اخراجات کم  ہوں گے جبکہ غربت اور عدم مساوات بڑھے گی۔

اقوام متحدہ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ تارکین وطن دنیا بھر جہاں کہیں بھی ہیں ان کو بے روگاری سے تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ ان سے وابستہ کروڑوں خاندانوں کو غربت سے بچایا جا سکے اور دنیا بھر کے 800 ملین سے زیادہ خاندانوں کی تعلیم,  صحت اور غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here