لاہور : پاکستان کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے کافی کچھ سننے کو ملتا ہے کہ افواج پاکستان 60 فیصد بجٹ لے جاتی ہیں جس کے بعد ترقیاتی منصوبوں کیلئے حکومت کے پاس بہت کم پیسہ بچتا ہے، اس بات میں کس قدر حقیقت اور کہاں تک افسانوی رنگ شامل ہے، ملک کے ممتاز معاشی ماہرین نے دفاعی بجٹ کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے اور حقائق سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔
معروف معاشی ماہر فرخ سلیم اس حوالے سے کہتے ہیں کہ پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ مسلح افواج بجٹ کا بڑا حصہ لے جاتی ہیں۔ بجٹ برائے مالی سال 2020-21ء کا کل حجم 7295 ارب روپے ہے جس میں دفاع کے لیے 1289 ارب ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کل بجٹ کا 17.67 فیصد بنتا ہے۔
اس حوالے سے دوسری بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ دفاع کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ آرمی کو جاتا ہے جبکہ دفاعی بجٹ کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ اگلے مالی سال کے 1 ہزار 289 ارب روپے دفاعی بجٹ میں سے آرمی کو 613 ارب روپے ، ائیر فورس کو 274 ارب روپے، نیوی کو 140 ارب روپے اور انٹر سروسز کو 262 ارب روپے دیے جائیں گے۔
اس طرح یہ بجٹ بری فوج میں 47.6 فیصد، فضائیہ میں 21 فیصد، بحریہ میں 11 فیصد اور انٹر سروسز کی 20 فیصد کے حساب سے تقسیم ہو جائے گا۔
فرخ سلیم کے مطابق دفاعی بجٹ کے حوالے سے ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اس میں ہر سال بڑا اضافہ ہوتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ 70ء کی دہائی میں دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے ساڑے چھ فیصد کے برابر تھا۔
جبکہ 20 سال پہلے مالی سال 2001-02ء میں یہ جی ڈی پی کے 4.6 فیصد کے برابر تھا اور اب اگلے مالی سال 2020-21ء میں اس ضمن میں جی ڈی پی کے 2.86 فیصد کے برابر رقم رکھی گئی ہے۔
اس حوالے سے چوتھی غلط فہمی جو پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان ایک بہت بڑی فوج رکھتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ دنیا کہ 64 ممالک ایسے ہیں جن کی فوج کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔
فرخ سلیم کے نزدیک پانچویں غلط فہمی جو پاکستانی فوج کے حوالے سے پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے فی کس اخراجات دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ پاکستان اس مد میں سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ اسرائیل اپنی فوج پر فی کس دو ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف 22 ڈالر خرچ کرتا ہے۔
دفاعی اخراجات کے حوالےسے چھٹی غلط فہمی یہ ہے کہ فوج کا کاروبار معیشت پر بوجھ ہے۔ اس حوالے سے فرخ سلیم کہتے ہیں کہ فوجی فرٹیلائزر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے اداروں میں سے ایک ہے، 2019ء میں اس نے ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی مد میں قومی خزانے میں 42 ارب روپے جمع کروائے۔
اسی طرح فوجی سیمنٹ ہر سال انکم ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مد میں 10 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرواتی ہے۔
فرخ سلیم کے مطابق ہم دفاع پر اپنے جی ڈی پی کا 2.86 فیصد خرچ کرتے ہیں جبکہ دنیا میں یہ شرح اوسطً 2.18 فیصد ہے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جو پاکستان کی نسبت اپنے جی ڈی پی کا زیادہ حصہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب 8 فیصد، اسرائیل 5.3 فیصد، روس 3.9 فیصد اور امریکا اپنے جی ڈی پی کا 3.4 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔
ان کا کا مزید کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتا ہے مگر ہمارے فی سپاہی اخراجات دنیا کی نسبت کافی کم ہیں۔
امریکا اپنے ایک فوجی پر 3 لاکھ 92 ہزار ڈالر، سعودی عرب 3 لاکھ 71 ہزار ڈالر، بھارت 42 ہزار ڈالر، ایران 23 ہزار ڈالر جبکہ پاکستان صرف 12 ہزار ڈالر خرچ کر پاتا ہے۔
پاکستان کے ایک اور ممتاز معاشی ماہر ڈاکٹر اکرام الحق بھی فرخ سلیم کے پیش کردہ اعداد و شمار کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں۔
پرافٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ میڈیا دفاعی بجٹ کے حوالے سے غلط معلومات پیش کرتا ہے، قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ دفاع کا نہیں بلکہ قرضوں کا ہے جس میں غلط معاشی پالیسیوں کے باعث بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
ڈاکٹڑ اکرام کے مطابق آرمی میں صرف 10 فیصد افسران بریگیڈئیر کے عہدے تک پہنچتے ہیں جو 20ویں گریڈ کا عہدہ ہے اور یہ شرح سول سروسز کی نسبت بہت کم ہے۔
میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدوں تک یہ شرح مزید کم ہوجاتی ہے جبکہ منتخب نمائندوں کی مراعات فوجی افسران کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
اسی طرح مسلح افواج کے تمام افسران اپنے یوٹیلٹی بلز ادا کرتے ہیں جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو پٹرول، بجلی اور جوڈیشل الاؤنس پر ٹیکس استثنی حاصل ہوتا ہے۔
ڈاکٹراکرام الحق کا مزید کہنا ہے کہ مسلح افواج کے تمام افسران انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جو انکی تنخواہوں سے کٹ جاتا ہے اور اگر انہیں سرکاری رہائش میسر ہو تو اس کا کرایہ بھی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔
اسی طرح آرمی ویلفئیر ٹرسٹ ایک کمرشل ادارہ ہے جو اپنے فنڈز خود پیدا کرتا ہے اور حکومتی خزانے میں ٹیکس بھی جمع کرواتا ہے۔