بڑی کھاد کمپنیوں نے پانچ برسوں سے گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس ادا نہیں کیا، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف

سنییٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں ہونے والے سٹینڈنگ کمیٹی برائے ریونیو، فنانس اور معاشی امور کے اجلاس میں کھاد کمپنیوں کی ٹیکس سے متعلق تجاویز مسترد، بڑی کمپنیوں کو ہر صورت ڈیلروں کیساتھ منافع شئیر کرنا ہوگا : ایف بی آر پالیسی ممبر

747

اسلام آباد : ملک کی پانچ بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں نے گزشتہ پانچ ماہ میں کوئی کوئی گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس ادا نہیں کیا۔

اس بات کا انکشاف ایف بی آر ممبر کی جانب سے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس، ریونیو اور معاشی امور کے پیر 22 جون کو ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔

سینیٹر فاروق ایچ نائک کی زیر صدارت ہونے والا اجلاس بجٹ 2020-21 کے حوالے سے تجاویز پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ہوا۔

اس سے قبل آل پاکستان فرٹیلائزر ڈیلرز ایسوسی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان کے کھاد کے فی بیگ  2 روپے کے منافع پر 0.75  فیصد ٹرن اوور ٹیکس وصول کررہا ہے۔ کمپنیوں نے اس  ٹیکس کی شرح 0.25 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی۔

اس پر ایف بی آر پالیسی ممبر ڈاکٹر حامد عتیق کا کہنا تھا کہ کھاد کے تھیلے پر صارفین پچیس روپے تک ٹیکس دے رہے ہیں لہذا بڑی کمپنیوں کوہرصورت اپنا منافع ڈیلروں کے ساتھ بانٹنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں انہیں [کھاد کمپنیوں] کو مختلف سربراہان کے دور میں سبسڈی دی جاتی رہی ہے۔ تاہم  اس بار ہم نے سبسڈی کے ذریعہ کاشتکاروں کو براہ راست سہولت فراہم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے ایف بی آر کے پیش کردہ دلائل پر کھاد ایسوسی ایشن کی تجاویز کو مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیے:

کورونا وائرس، ٹرمپ نے امریکی شہریوں کیلئے گرین کارڈز، غیرملکیوں کیلئے ویزوں کا اجراء روک دیا

ایف بی آر کا نظرثانی شدہ ٹیکس ہدف بھی پورا نہ ہو پانے کا امکان، چئیرپرسن کو ہٹانے کی کوشش شروع

کسانوں کے لیے بُری خبر، یوریا کھاد کی قیمت میں دو سو روپے اضافے کا امکان

ایف بی آر کے آفیشل ممبر پالیسی نے مزید بتایا کہ حکومت نے اگلے مالی سال کے لئے آمدنی کا ہدف 4،963 ارب روپے مقرر کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا کی صورتحال قابو میں رہی تو یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر مالی سال 21 کی پہلی سہ ماہی میں  960 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 850 ارب روپے کا محصول جمع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ سینیٹ کمییٹی کے اجلاس میں شریک  سینیٹر شیری رحمان نے قومی خزانہ کمیشن (این ایف سی) کے تحت صوبائی حصص میں 11 فیصد کٹوتی کے حکومتی منصوبے پر  نظر ثانی کی تجویز پیش کی۔ کمیٹی کے چیئرمین نے فنانس ڈویژن کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کےحصے میں کسی قسم کی کٹوتی کی تجویز نہ دینے کی سفارش کی۔

سینیٹر سراج الحق نے حکومت کو معیشت سے “سود” ختم کرنے کے علاوہ تعلیم اور صحت کے بجٹ کو دوگنا کرنے کی تجویز دی۔

مزید یہ کہ کمیٹی نے قرضوں کے معاہدات کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے حوالے سے تجویز کی منظوری دینے کے علاوہ  ایف بی آر کو سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر 100 روپے کرنے کی بھی سفارش کی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here