ایم سی بی بینک اور یونائیٹڈ بینک (یو بی ایل) پاکستان کے دو سرکردہ بینک ہیں، ایم سی بی بینک اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود پاکستان۔ اس کی بنیاد 1947ء میں آدم جی گروپ نے رکھی تھی۔ اب اس کے زیادہ تر شئیرز میاں منشاء کے نشاط گروپ کے پاس ہیں، وہ پاکستان کے امراء میں سے ایک اور نشاط گروپ اور ایم سی بی بینک کے چیئرمین ہیں۔
یونائٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل) کی بنیاد 1959ء میں معروف بینکر آغا حسن عابدی (بی سی سی آئی والے) نے رکھی تھی، یہ بینک اب پاکستانی نژاد برطانوی رائیس سر انور پرویز کی ملکیت ہے، دونوں بینک پاکستان کے’پانچ بڑے‘ بینکوں کے گروپ میں شامل ہیں۔
لہذا یہ جاننا اچھی بات ہے کہ جب گھانا، روانڈا، کینیا، ویتنام اور سری لنکا جیسے ممالک میں فرنٹیئر مارکیٹ کے دوسرے بینکوں کا تقابل کیا جاتا ہے تو ایم سی بی اور یو بی ایل جیسے بینک کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔
یکم جون 2020ء کو اپنے کلائنٹس کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں ای ایف جی ہرمیس (EFG Hermes) کے تجزیہ کاروں کاٹو مکورو، مراد انصاری ، رونل گاڈھیا اور معمر اسماعیلی نے مختلف فرنٹئیر مارکیٹس میں کورونا وائرس کے زور دار جھٹکے برداشت کرنے میں کامیاب رہنے والے 20 بینکوں کا جائزہ پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں ایم سی بی پہلے چار بینکوں میں شامل رہا اور پاکستان کیلئے سب سے اوپر رہا، اس کے تیزی سے بڑھتے ذخائر اور قرضہ دینے کے پرانے طریقہ کار نے خاص طور پر تجزیہ کاروں کو متاثر کیا۔ یوبی ایل بھی زیادہ پیچھے نہیں تھا اور جائزے میں شامل 20 بینکوں میں سے آٹھویں نمبر پر رہا۔
جائزے میں شامل 20 بینکوں کا تجزیہ چار اصولوں کی جانچ پڑتال کی بنیاد پر کیا گیا، یہ چار اصول درج ذیل تھے۔
1۔ کارپوریٹ گورننس (کسی بینک کا دماغ اور روح)
2۔ بیلنس شیٹ سٹرکچر (بینک کا دھڑ)
3۔ لیکویڈیٹی اور پرافٹ پروفائل (دوران خون کا نظام)
4۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم (بینک کے اعضاء)
عجیب و غریب ادبی تشبیہات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان کے دونوں بینکوں (ایم سی بی اور یو بی ایل) نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا، بیلنس شیٹ میں دونوں کی کارکردگی متوازن رہی جبکہ لیکویڈیٹی کے حساب سے دونوں سرفہرست رہے۔
کارپوریٹ گورننس کی مخصوص کیٹیگری میں دونوں بینکوں نے لیول آف ڈسکلوژر(پبلشنگ رپورٹس، مالیاتی سٹیٹمنٹس) کے لحاظ سے بہترین سکور کیا تاہم آڈٹ ادائیگیوں میں کچھ ابہام تھا۔
اس رپورٹ کے مصنفین نے لکھا کہ ایم سی بی کی 2019ء کے آڈٹ کاسٹ یو بی ایل کے آڈٹ (6 لاکھ 87 ہزار ڈالر) کے 42 فیصد (2 لاکھ 87 ہزار ڈالر) کے لگ بھگ رہی، اس کے باوجود 2019ء کی بیلنس شیٹ میں یو بی ایل کے 80 فیصد کے برابر رہی۔ (حالانکہ تمام 20 بینکوں کی بیلنس شیٹس کا جائزہ چار آڈیٹرز نے لیا تھا)۔
رپورٹ میں اُن بینکوں کا سکور بہترین رہا جن میں سرکاری شئیرز کم سے کم تھے، یوں ایم سی بی اور یو بی ایل دونوں کو مکمل پوائنٹس ملے چونکہ دونوں مکمل طور پر نجی ملکیت میں ہیں۔
تاہم جب اکثریتی اور اقلیتی شئیر ہولڈرز کے مابین تعلق کو دیکھا گیا تو رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ “اگرچہ پاکستان میں دونوں بینکوں (ایم سی بی اور یو بی ایل) کے چیئرمین اکثریتی شئیرز کے حامل ہیں، اس کے باوجود دونوں نے ان بینکوں کے علاوہ بھی بڑے بڑے مالیاتی ادارے بنا رکھے ہیں جو بینکوں پر سبقت لے جا سکتے ہیں۔”
اس سلسلے میں یوبی ایل کی کارکردگی خراب رہی، یو بی ایل کا صرف ایک چیئرمین ہے جبکہ 11 فیصد ملکیت بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پاس ہے حالانکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایگزیکٹو نمائندگی بہت کم ہے (9 ارکان میں سے صرف ایک رکن ایگزیکٹو کا نمائندہ ہے)۔
یہ تعجب کی بات نہیں کہ دونوں پاکستانی بینکوں نے صنفی تنوع کے اعتبار سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا، خواتین ملازمین کی تعداد کے حوالے سے ایم سی بی 20 بینکوں کی فہرست کے آخر سے دوسرے نمبر پر رہا جبکہ یو بی ایل نے اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
رپورٹ میں یہ بات بھی کافی خراب پیرائے میں کی گئی ہے کہ پاکستانی بینکوں کے سی ای اوز کا اوسط معاوضہ بھی بہت زیادہ ہے، پاکستان میں کسی بھی بینک کا سی ای او 6 لاکھ 73 ہزار ڈالر سالانہ کماتا ہے جو بنگلہ دیش میں کسی بینک کے سی ای او کے سالانہ معاوضے (دو لاکھ 49 ہزار ڈالر) سے دوگنا ہے۔
اثاثہ جات کی نفوذ پذیری (asset penetration) کے حوالے سے یو بی ایل اور ایم سی بی کا سکور اچھا رہا کیونکہ دونوں بینکوں کے مجموعی قرضہ جات کا حجم ان کے کل اثاثوں کا 34 فیصد ہے جبکہ یو بی ایل کی انویسٹمنٹ سکیورٹیز 43 فیصد اور ایم سی بی کی 47 فیصد ہیں۔
ایم سی بی کا قرضوں کا طریقہ کار زیادہ متنوع ہے کیونکہ اس سے قرضہ حاصل کرنے والے 18 فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے ہیں، اس کے برعکس یو بی ایل کی توجہ کا مرکز کارپوریٹ سیکٹر ہے جو اس سے 84 فیصد قرضے لیتا ہے، اس حوالے سے دونوں بینکوں کا سکور خراب رہا۔
روشن پہلو یہ ہے کہ مجموعی اثاثہ جات اور لاگت کے تناسب (cost-to-total asset ratio)کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے دونوں بینکوں کی کارکردگی کو سراہا گیا اور جائزہ رپورٹ میں انہیں کافی زیادہ پوائنٹس دئیے گئے۔ دونوں بینک فی برانچ اخراجات تین لاکھ ڈالر سے کم رکھنے میں کامیاب رہے (سروے میں شامل دو تین بینک ہی ایسا کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے)۔ اس کے علاوہ ایم سی بی اور یو بی ایل دونوں ہی فی ملازم اخراجات 2500 ڈالر سے کم رکھنے میں کامیاب رہے، اسی طرح ایم سی بی کے فی کسٹمر اخراجات 40 ڈالر سے کم جبکہ یو بی ایل کے 54 ڈالر سے کم رہے۔
ایم سی بی ملازمین کو حاصل فوائد کو کنٹرول کرنے میں بھی بہتر ثآبت ہوا بلکہ یو بی ایل کو اس حوالے سے کوئی پوائنٹس نہیں ملے کیونکہ یہ عملے کو حاصل فوائد کنٹرول کرنے میں ناکام رہا جو مجموعی اخراجات کے 50 تک جا پہنچے ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین کے نے لکھا: “ہماری رائے میں اس طرح (عملے کے اخراجات) کی بہت زیادہ ادائیگیاں کرنے والا بینک نفری کو منظم کرنے میں کسی قدر کم لچکدار ثابت ہوتا ہے۔”
لیکویڈیٹی فرنٹ پر یو بی ایل کا سکور اس کے مجموعی قرضوں اور ڈپازٹس کے تناسب کے حساب ایم سی بی کی نسبت بہتر رہا، ایم سی بی کو تین ماہ کے اندر87 فیصد قرضوں کی قیمت کے دوبارہ تعین پر زیادہ پوائنٹس ملے، نیٹ انٹربینک پوزیشنز ٹو ٹوٹل ایسٹس کا تناسب (net interbank positions-to-total assets) منفی دو اور پلس دو کے درمیان رکھنے پر دونوں بینکوں کو کافی زیادہ پوائنٹس ملے۔
ایم سی بی کے مجموعی ڈپازٹس میں اس کے کرنٹ اکائونٹس اور سیونگ اکائونٹس کا حصہ 89 فیصد ہے جبکہ یو بی ایل میں یہ 74 فیصد ہے، جائزہ رپورٹ کے مطابق “کرنٹ اکائونٹ اور سیونگ اکائونٹ کا زیادہ تناسب رکھنے والے بینک حالیہ وبا کے بعد کسی بھی متوقع معاشی بحران کو برداشت کرنے کے زیادہ قابل ہوں گے۔”
اس کے بعد بالآخر ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا تو ایم سی بی اور یو بی ایل دونوں کی کارکردگی خراب رہی، زیر جائزہ 20 بینکوں میں ڈیجیٹل بینکنگ کے حوالے سے ایم سی بی کہیں درمیان کے نمبر پر آیا جبکہ یو بی ایل کو بالکل نیچے دھکیل دیا گیا تاہم ایسا صرف دونوں پاکستانی بینکوں کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ کئی بہترین عالمی بینک بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے حوالے سے معیار پر پورے نہ اتر سکے اور رپورٹ میں انہیں کم پوائنٹس دئیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین کے مطابق “اگر کوئی بینک اپنی سالانہ رپورٹ یا کارپوریٹ پریزنٹیشنز میں موبائل صارفین کی تعداد، موبائل منی ٹرانزیکشن کی قیمت، پی او ایس ٹرمینل، اے ٹی ایم اور ایجنٹوں کے بارے معلومات شئیر کرنا ضروری نہیں سمجھتا تو کوئی کیسے مذکورہ بینک کی جانب سے موثر ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنانے کی صلاحیت پر اعتماد کر سکتا ہے؟