اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے خاندان کی ٹیکس رپورٹ 75 دن میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
تاہم ضابطے کی کارروائی کی وجہ سے ایف بی آر کو رپورٹ بنانے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کورونا: پاکستان کے جی ڈی پی میں اہم کردار ادا کرنے والی بڑی صنعتوں کی پیداوار شدید متاثر
ناقص کارکردگی ، ایف بی آر کے ملازمین کو مالی سال 2021 میں اعزازیہ نہیں ملے گا
کابینہ اجلاس: کورونا کی دوا کی قیمت متعین کرنے کی منظوری ، درآمدی ڈیوٹی لاگو نہیں ہو گی
ٹیکس حکام کے مطابق شروع میں اسلام آباد کے ریجنل ٹیکس آفس کمشنر کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسی کی فیملی کو ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ کی فراہمی کے لیے ایک نوٹس بھیجا جائے گا۔
جس کے جواب سے اگر کمشنر مطمئن ہوئے تو وہ ایف بی آر چئیرمین کو رپورٹ جمع کروائیں گے جن کی جانب سے رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو پیش کی جائے گی ۔
اگر کمشنر جسٹس قاضی فائز عیسی کی فیملی کو بھیجے جانے والے نوٹس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو وہ جائیداد کی منی ٹریل کی فراہمی کے لیے شو کاز نوٹس جاری کریں گے۔
تاہم شو کاز نوٹس کا بھی تسلی بخش جواب نہ آنے پر کمشنر ٹیکس ریکور کرنے کا حتمی حکم نامہ جاری کریں گے۔
مگر قاضی فائز عیسی کی فیملی کمشنر کے حکم کو کمشنر اپیل، ان لینڈ ریونیو ٹربیونل، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکے گی۔ جس کے بعد معاملے کے حتمی اختتام کا دارومدار ان فورمز کی کاروائی کی مدت پر ہوگا۔
75 دنوں کے بعد ایف بی آر سپریم کورٹ کو معاملے کی کارروائی سے متعلق آگاہ کرے گا۔
ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو جسٹس قاضی فائز عیسی کی فیملی سے زرعی آمدن کے بارے میں سوال نہیں پوچھ سکے گا کیونکہ یہ صوبائی معاملہ ہے تاہم ایف بی آر غیر رہائشی پاکستانی کی جانب سے پاکستان سے آمدن کمانے کے حوالے سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے۔