اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے کوویڈ 19 سے متاثرہ مریضوں کے استعمال میں آنے والی دوائی (remdesivir) کی قیمت فکس کرنے کی منظوری دی ہے، اس دوائی کی درآمد پر ڈیوٹی لاگو نہیں ہوگی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اجلاس کے آغاز میں وزیرِ اعظم نے کورونا کی صورتحال کا ملکی معیشت اور خصوصاً عوام کی زندگیوں پر منفی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ملکی معیشت کو استحکام فراہم کرنے کی حکومتی کوششیں متاثر ہوئی ہیں‘ معاشی عمل کی روانی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت نے تعمیرات کے شعبے کو تاریخی مراعاتی پیکیج دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعمیرات کے فروغ کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ جہاں معاشی عمل تیز ہو وہاں نوجوانوں کے نوکریوں کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ نامساعد معاشی حالات کے باوجود حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت رواں مالی سال کے لئے بھی خاطر خواہ رقوم مختص کی ہیں تاہم بڑھتی ہوئی ترقیاتی ضروریات اس امر کی متقاضی ہیں کہ ترقیاتی عمل میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت نجی شعبے کی شمولیت کو یقینی بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے۔
وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ ملکی مصنوعات کی بیرون ملک برآمد خصوصاً فروٹ اور چاول کی برآمد اور ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان کو برآمدات کے حوالے سے کاروباری برادری کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔
کابینہ کو کورونا کے حوالے سے استعداد کار میں اضافے کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ابتدا میں ملک میں ٹیسٹ کے حوالے سے صرف دو لیبارٹریز موجود تھیں اس وقت ایک سو سات لیبارٹریاں کام کررہی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر 25 ہزار سے زائد ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ وینٹی لیٹرز کی تعداد کو بڑھا کر 4800 کردی گئی ہے، مزید 1300کا اضافہ جلد ہو جائے گا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ ملک بھر میں دو ہزار آکسیجن بیڈز کا اضافہ کیا جا رہا ہے جو جولائی تک مکمل کر لیا جائے گا۔ حفاظتی کٹس کی لوکل پیداوار کے بعد اب آئندہ تین ہفتوں میں مقامی طور پر بنائے گئے وینٹی لیٹرز کی کھیپ بھی متعارف کرا دی جائے گی۔
کابینہ نے کوویڈ سے متاثرہ مریضوں کے استعمال میں آنے والی ایک دوائی (remdesivir) کی قیمت کا تعین کرنے کی بھی منظوری دی ہے، اس دوائی کی درآمد پر ڈیوٹی لاگو نہیں ہوگی۔
بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو پاکستان واپس لانے کے حوالے سے وزیرِ اعظم نے حکم دیا کہ مڈل ایسٹ میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں خصوصاً مزدور اور محنت کش طبقے کو واپس لانے کے لئے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں اور اس حوالے سے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
کابینہ کو ملک میں پٹرول کی دستیابی کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جون 2019ء میں پٹرول کی کل فروخت 6 لاکھ 17 ہزار ٹن تھی۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے جون 2020ء کے لئے 8 لاکھ 47 ہزار ٹن کا انتظام کیا گیا۔ اس وقت 2 لاکھ 36 ہزار ٹن پٹرول ملک میں موجود ہے، تین لاکھ 93 ہزار ٹن پٹرول کے جہاز لائن میں ہیں۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں 51 فیصد سیل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پٹرول کی قلت کا مسئلہ بڑی حد تک حل کر لیا گیا تاہم ملک کے کچھ حصوں میں بعض وجوہات کی بناء پر مشکلات کا سامنا ہے جن کو حل کرنے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 10 جون 2020ء کے اجلاس میں لئے گئے فیصلوں کی توثیق کی، ان فیصلوں میں ہیلتھ کیئر ورکرز ، جو کورونا کے خلاف برسرپیکار ہیں، کے لئے رسک الاﺅنس کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ اس سے ساتھ ساتھ اس اجلاس میں الیکٹرک وہیکل پالیسی، سال 2020ء کے لئے ملک میں یوریا کھاد کی ضروریات کے تخمینوں اور گندم کی حکومتی سطح پر خرید کی صورتحال اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گندم کی ڈیوٹی فری درآمد کے فیصلے شامل ہیں۔
ملک کے بڑے شہروں (اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور ملتان) کے ائیرپورٹس سے ملحقہ علاقوں میں کثیر المنزلہ عمارات کی تعمیر کی اجازت دینے کے کابینہ کے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے بتایا گیا کہ 62 فیصد علاقوں کے لئے این او سی کا اجراء کیا جا چکا ہے جبکہ بقیہ علاقے جو ائیر پورٹس سے ملحقہ ہیں ان کے حوالے سے پاکستان سول ایوی ایشن کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کثیر المنزلہ عمارات کی اونچائی کی حد کے حوالے سے نوٹیفیکیشن کا اجراء کرے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ وبا کی وجہ سے یہ عمل قدرے تاخیر کا شکار ہوا لہٰذا اس کی تکمیل میں کچھ مزید وقت درکار ہے۔ کابینہ نے ان وجوہات کے پیش نظر ہدایت کی کہ ائیرو ناٹیکل سٹڈی 31 جولائی 2020ء تک مکمل کی جائے۔
وفاقی کابینہ نے پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ 2019ء کے سیکشن 32 کے تحت کوویڈ 19 کے نام سے ایک خصوصی فنڈ کے قیام کی منظوری دی ہے، 1.24 کھرب روپے کے معاشی پیکیج میں سے اب تک بچ جانے والی رقوم کو اس فنڈ میں ڈالا جائے گا تاکہ نئے مالی سال میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ بقیہ فنڈز بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کام آ سکیں۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ گھروں میں کام کرنے کی کیٹگری کو بھی ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991ء کے شیڈول وَن کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس اقدام سے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون میں موجود سقم کو دور کیا گیا ہے اور ان بچوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے جن کو ڈومیسٹک ورکرز کے طور پر گھروں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اس اقدام کا اطلاق اسلام آباد کی حدود میں اور چودہ سال سے کم عمر کے بچوں پر ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ کابینہ نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے سروے کیا جائے اور ایسے بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تاکہ ایسے بچوں کی نگہداشت اور ویلفیئر کے حوالے سے مفصل لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔
وفاقی کابینہ نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا 2016ء) کے حوالے سے گلگت بلتستان میں پریزائیڈنگ افسر مقرر کرنے کی تجویز کا جائزہ لیتے ہوئے ہدایت کی کہ اس تجویز کا قانونی حوالے سے جائزہ لیکر دوبارہ پیش کی جائے۔