کراچی : معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اور امریکا معاشی پالیسوں کے حوالے سے پاکستان کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بجٹ 2020-21ء میں چین پاکستان اقتصآدی راہداری (سی پیک) منصوبے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی جانب سے منعقد کروائے گئے ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا دارومدار بیرونی قرضوں پر ہے لہٰذا قرض خواہوں کو خوش کرنے کے لیے بجٹ بنانے والوں نے سی پیک کا نام نہیں لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ 2020-21ء روایتی طرز کا ہے جس میں معاشی ترجیحات پر توجہ نہیں دی گئی، کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں جس سے مستقبل میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
صرف پاکستان ہی نہیں، کورونا نے بڑی معاشی طاقتوں کی شرح نمو بھی منفی کر دی
ٹڈی دل، زرعی معیشت کو 800 ارب روپے نقصان کا خطرہ
سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشنز میں اضافہ ، تفریق ختم کی جائے : پے اینڈ پنشن کمیشن
قیصر بنگالی نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ آئی ایم ایف کی ایما پر کوشش کی گئی ہے کہ عوام کی جیب سے جتنا پیسہ ٹیکس کی صورت نکالا جا سکتا ہے، نکال لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی بحران کے باوجود حکومت نے غیر ترقیاتی اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی، حکومت کی جانب سے معیشت کی زبوں حالی کی ساری ذمہ داری کورونا بحران پر ڈالی جارہی ہے حالانکہ معیشت پہلے ہی بدترین صورت حال سے دوچار تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے جا رہے جبکہ ہماری برآمدات جو کورونا سے پہلے ہی کم ہو رہی تھیں ان میں مزید کمی واقع ہو گی کیونکہ مہلک وائرس کے باعث دنیا کی معیشتیں سکڑ رہی ہیں اور امریکا اور یورپ کساد بازاری کے دور سے گزر رہے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق برآمدات میں کمی کے باعث ٹیکسٹائل ملوں کی بندش کا خطرہ ہے کیونکہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا پاکستان کی برآمدات میں بڑا حصہ ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو لاکھوں مزدور بے روزگار ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملازمین کو معاشی بحران سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سوشل سیکیورٹی سسٹم متعارف کروائے جس کے تحت ہر شہری کو تین ہزار روپے فراہم کیے جائیں مگر اس میں بھی ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ تقریبا دو سے تین فیصد ملازمین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جو انہیں کسی بھی سوشل سیکورٹی پروگرام سے مالی معاونت کے لیے نا اہل بنا دیتا ہے۔