اسلام آباد : مقامی طور پر کاریں تیار کرنے والے اداروں نے استعمال شدہ کاروں کی درآمد کے حوالے سے پالیسی نرم کیے جانے کی خبروں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کے نام لکھے گئے خط میں پاکستان آٹوموٹومینوفیکچورز ایسوی ایشن (پی اے ایم اے) کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے پالیسی نرم کرنے سے مقامی آٹو انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچے گا۔
اس سے پہلے پاکستان آٹوموٹیومینوفیکچوررزایسوی ایشن 3 جون کو وزیراعظم عمران خان کو بھی اس معاملے پر خط لکھ کر اپنے تحفظات سے آگاہ کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
موٹر سائیکلوں، رکشوں اور بھاری کمرشل گاڑیوں سے متعلق الیکٹرک وہیکل پالیسی منظور
وفاقی کابینہ نے ملک میں موبائل فونزکی تیاری کی پالیسی کی منظوری دے دی
کورونا کے علاج کیلئے ویکسین نہیں، تیار کردہ دوا ہی کافی ہو گی، چینی محققین
ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں نئی بین الاقوامی آٹو کمپنیوں کیا، ہونڈائی اور ڈاٹسن کی آمد کے بعد مقامی انڈسٹری جلد ہی ملکی مانگ پورا کرنے کے قابل ہوجائے گی جس کے بعد استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد غیر ضروری ، مہنگی اور ملکی مفاد کے خلاف ہوگی۔
وزارت صنعت و پیداوار کو لکھے گئے خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ کار ڈیلرز تارکین وطن پاکستانیوں کے لیے بنائی گی پالیسی کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر گاڑیاں درآمد کر رہے ہیں جس سے بڑی تعداد میں قیمتی زرمبادلہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ درآمد شدہ گاڑیوں کا ملکی مارکیٹ میں حصہ 30 فیصد ہے جس کے باعث آٹو موٹو ڈیویلپمنٹ پالیسی (2016-2021) کے چیپٹر 5 کو اِن گاڑیوں کی درآمد کے لیے وقف کیا گیا ہے۔
حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں ملکی آٹو مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں کچھ نئے کھلاڑیوں نے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوی ایشن کے مطابق گاڑیوں کی درآمد کی پالیسی کے غلط استعمال کے ذریعے ملک کو ہر سال دو ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس گاڑیوں کی ملک میں تیاری سے نہ صرف مقامی صنعت ترقی کرتی ہے بلکہ روزگار بھی پیدا ہوتا ہے۔