حکومت پاکستان اسلامی بانڈز کے اجراء کے ذریعے ملکی مالیاتی نظام سے 750 ارب روپے حاصل کرنے کی تیاریوں میں ہے اور اس چیز سے سب سے زیادہ فائدہ جسے ہوگا وہ ملک کا سب سے بڑا اور اسلامک بیکنگ میں سب سے زیادہ منافع بخش ’میزان بنک‘ ہے۔
اے کے ڈی سیکیورٹیز کے ریسرچ اینالسٹ حمزہ کمال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’حکومت کی جانب سے بجٹ اخراجات پورے کرنے کے لیے اسلامی بنکنگ کا دروازہ کھٹکٹایا گیا ہے جس کے تحت 750 ارب روپے کے اجارہ سکوک بانڈز جاری کیے جائیں گے جبکہ 200 ارب روپے کے پاور سکوک 2 کی بڈنگ پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے۔اس اقدام سے میزان بنک کی بیلنس شیٹ میں اضافہ ہوگا جس سے شرح سود کم ہونے سے نیٹ انٹرسٹ مارجن پر پڑنے والے اثرات میں کمی واقع ہوگی‘‘۔
29 مئی کو کلائنٹس کو جاری کیے جانے والے نوٹ میں حمزہ کمال کا کہنا تھا، ’’2020ء میں میزان بنک کے نیٹ انٹرسٹ مارجن کی شرح 5.43 فیصد جبکہ 2021ء میں 4.72 فیصد ہوگی۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس چیز کو سن 2020ء سے 2022ء تک 5.6 فیصد منافع میں تبدیل ہونا چاہیے جو آمدنی کے دیگر ذرائع کے ساتھ مل کر بنک کے لیے خاصی مستحکم آمدنی کا باعث بنے گی۔
بنک کی ترقی کی ایک وجہ اس کی برانچوں کا تیزی سے بڑھتا ہوا نیٹ ورک بھی ہے، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں بھی میزان بنک نے اپنی برانچ بنائی وہاں اسے کبھی بھی ڈیپازٹس کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
گزشتہ دوسالوں میں میزان بنک نے 159 برانچیں قائم کی ہیں اور کورونا وبا پھوٹنے سے پہلے اسکی انتظامیہ نے 150 مزید برانچیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اب اس میں کچھ تاخیر کا امکان ہے۔
مزید برآں ماہرین کا ماننا ہے کہ حصص کی کم قیمت کے باعث میزان بنک سرمایہ کاری کے لیے پر کشش ہے تاہم حمزہ کمال کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں بہت زیادہ اچھے کی اُمید بھی نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ کورونا اور دوسرے عوامل کے باعث معیشت سست روی کا شکار ہے اور شرح سود آنے والے کچھ وقت تک کم ہی رہے گی۔
کم شرح سود بنکوں کے منافع میں کمی کا سبب بن سکتی ہے، بنکوں کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ نیٹ انٹرسٹ مارجن پر ہوتا ہے جو بنک کی جانب سے دیے جانے والوں قرضوں پر کمائے گئے سود اور ڈیپازٹ کنندہ کو منافع کی مد میں دیے گئے سود کا فرق ہوتا ہے۔
ڈیپازٹ انٹرسٹ ریٹ مخصوص وقت میں ایک خاص حد تک ہی کم ہوسکتا ہے مگر قرضوں پر شرح سود اس کی نسبت تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ قرضوں پر سود کی مد میں بنکوں کے پاس پیسہ آتا کم ہے مگر ڈیپازٹ انٹرسٹ کی مد میں باہر زیادہ جاتا ہے اور یہ چیز ان کے نیٹ انٹرسٹ مارجن میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
میزان بنک کا آغاز 1997ء میں محدود لائسنس کے تحت المیزان انویسٹمنٹ کے نام سے ہوا تھا اور اسے کارپوریٹ اور انویسٹمنٹ بنک کے طور پر کام کرنے کی اجازت تھی۔اُس وقت بینک کا حجم اور اہمیت اتنی کم تھی کہ اس کے پاس کل وقتی چیف ایگزیکٹیو آفیسر بھی نہیں تھا۔
تاہم اپنے آغاز سے ہی میزان بنک اسلامک فنانسنگ کے میدان میں سب سے بڑا کھلاڑی تھا اور یہ کسی بھی دوسرے بنک کی نسبت بنکنگ کے اس شعبے میں کل وقتی خدمات فراہم کرنے والا ادارہ بننا افورڈ کرسکتا تھا۔
اس نے مذہبی رہنماؤں کی مدد سے اسلامی مصنوعات کی ایک مکمل رینج بنائی تاکہ روایتی بنکوں کیساتھ کاروبار میں مقابلہ کیا جاسکے۔ اسلامی بنکنگ کو فروغ دینے کے لیے میزان بنک نے دوسرے بنکوں کو بھی شریعت کے مطابق مصنوعات بنانے میں مدد فراہم کی۔
اسلامی بنکنگ کی خدمات فراہم کرنے والے دوسرے اداروں کی طرح میزان بنک نے بھی آغاز روایتی مصنوعات سے ہی کیا تاہم بعد ازاں کمال مہارت اور تخلیقی صلاحیت سے ان مصنوعات کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا گیا۔
اس سلسلے میں ان مصنوعات کو عربی نام دینے کی تکنیک بھی استعمال کی گئی جس سے کار لیز ’اجارہ‘ اور کاروباری قرضے ’مرابحہ‘ بن گئے۔
وقت کے ساتھ میزان بنک پاکستان میں اسلامی بنکنگ کا سب سے بڑا مالیاتی ادارہ بن گیا اور یہ کامیابی سے آج بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 2018ء میں اس کا اسلامی بینکاری کے نظام میں 36.2 فیصد حصہ تھا اور گزشتہ ایک دہائی سے اس میدان میں اس کا حصہ لگ بھگ اتنا ہی ہے۔
دس برسوں میں میزان بنک کے ڈیپازٹس میں اتنا ہی اضافہ ہوا جتنا پوری اسلامی بینکاری کے شعبے کا ہوا، اس عرصے میں میزان بنک کے ڈیپازٹس میں 27.3 فیصد جبکہ اسلامی بینکاری کے ڈیپازٹس میں 27.6 فیصد اضافہ ہوا۔
زیادہ دلچسپ بات میزان بنک کی جانب سے اسلامی بینکاری کے شعبے میں کمایا جانے والا منافع ہے، پرافٹ اردو نےاس حوالے سے بنک کی مالیاتی سٹیٹمنٹس اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اسلامی بینکاری کے کل منافع میں میزان بنک کا حصہ 50 فیصد ہے۔