اسلام آباد : ملک میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کے لیے حکومت نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے پلان پر کام شروع کر دیا ہے۔
یہ پلان پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت بنایا جا رہا تاکہ ملک کے اپ سٹریم اور مڈ سٹریم سیکٹرز میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کیے جا سکیں۔
حکومت اس پلان کے ذریعے پانچ ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پاکستان لانا چاہتی ہے جبکہ منصوبوں کی فنڈنگ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل کے تحت ہوگی۔
ذرائع نے پرافٹ اُردو کو بتایا کہ وزارت توانائی نے یہ پلان دنیا بھرمیں پاکستانی سفارتخانوں کو بھجوا دیا ہے تاکہ وہ متعلقہ کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرسکیں تاہم بیوروکریٹک رکاوٹوں کی بناء پر یہ ایک مشکل کام ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد تیل کی فروخت میں 39 فیصد اضافہ
کورونا بحران کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان کیسے سستی گیس درآمد کر سکتا ہے؟
عالمی منڈی میں کم قیمتوں سے فائدہ اُٹھانے کےلیے تیل کی ایڈوانس درآمد پر غور
ایک اندازے کے مطابق اِس وقت ملک میں 12 لاکھ 46 ہزار877 ملین بیرل تیل اور 57.436 کھرب کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں۔
پاکستان کے سیڈی مینٹری ایریا کا حجم 8 لاکھ 27 ہزار 268 مربع کلومیٹر ہے جس میں صرف ایک ہزار 94 کنوئیں ذخائر کی تلاش کے لیے جبکہ ایک ہزار 443 کنوئیں مزید گہرائی کی نیت سے کھودے گئے ہیں اور اس وقت کنوئیں کھودنے کی شرح فی 100 کلومیٹر تین کنوئیں ہے۔
ان کنوؤں کی کھدائی سے 394 ذخائر دریافت ہوئے لہٰذا کامیابی کی شرح 1:2.80 ہے جو کہ کافی پرکشش ہے۔ ان میں سے 95 فیصد کنوئیں انڈس بیسن، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں واقع ہیں جبکہ ابھی تک ان علاقوں میں کوئی آف شور ڈرلنگ نہیں ہوئی۔
عالمی سطح پر مسابقتی پوزیشن میں آنے کے لیے حکومت نے متعدد ترغیبات پر مبنی کئی پٹرولیم پالیسیاں بنائی ہیں جن کے تحت مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لیے کروڈ پرائس 110 ڈالر فی بی بی ایل رکھی گئی ہے۔
اسی طرح زون وَن کے لیے گیس کی قیمت 6.6 فی ایم ایم بی ٹی یو، زون ٹو کے لیے 6.3 ایم ایم بی ٹی یو، زون تھری کے لیے 6.00 فی ایم ایم بی ٹی یو رکھی گئی ہے۔
مزید برآں آف شور شیلو کے لیے 7 ایم ایم بی ٹی یو، ڈیپ کے لیے بھی 7 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ الٹرا ڈیپ کے لیے قیمت 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو رکھی گئی ہے۔
تلاش اور کھدائی کے لیے لائسنس کے شفاف اجراء کے لیے کنوؤں کی تعداد کو مدنظر رکھا جاتا ہے جبکہ ہر کنوئیں کی کھدائی کی لاگت 10 ہزار ڈالر رکھی گئی ہے۔
اس کے علاوہ مشینری اور آلات کی درآمد پر ڈیوٹی پر بھی چھوٹ دی گئی ہے۔ دلچسپی رکھنے والی کمپنیاں کسی علاقے کے حصول کے لیے انفرادی یا گروپ کی شکل میں بولی لگا سکتی ہیں۔
کارپوریٹ ٹیکس کی شرح رِنگ فینس کے بغیر 40 فیصد رکھی گئی ہے، اسی طرح لیز کی مدت ختم ہونے پر اس میں پانچ سالہ اضافے کے لیے ویل ہیڈ ویلیو کے 15 فیصد کے برابر رقم کی ادائیگی اور پائپ لائن میں جانے والی 90 فیصد گیس کی حکومت جبکہ بقیہ 10 فیصد کی حکومت کی منظور شدہ کمپنی کو فروخت کرنا ہوگی۔
اس کے علاوہ غیر روایتی ہائیڈرو کاربن کے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے 2011 میں ایک نئی پالیسی بنائی گئی تھی جس میں 2012 کی پڑولیم پالیسی کے تحت سرمایہ کار کو گیس یا تیل کی قیمت پر 20 فیصد پریمیم دیا جائے گا۔
پٹرولیم ڈویژن شیل گیس کی دریافت کے حوالے سے غیر ملکی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے بھی ایک پر کشش پالیسی بنانے میں مصروف عمل ہے۔
یہاں یہ بات بتانا مناسب رہے گا کہ حکومت نے اپ سٹریم پٹرولیم سیکٹر میں کاروبار میں آسانی فراہم کرنے کے لیے پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن رولز 2013 میں متعدد ترامیم کی ہیں ۔
اس کے علاوہ آئل ریفائننگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے بھی متعدد پر کشش ترغیبات دی گئیں ہیں۔