اسلام آباد : کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے سینی ٹائزر کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر مارکیٹ میں اس سے بچاؤ کے اس اہم ترین ہتھیار کی جعلی اور ناقص اقسام کی بھرمار ہے۔
ذرائع کے مطابق مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر ہینڈ سینی ٹائزرز مہلک وائرس کے خلاف بے اثر ہیں کیونکہ ان میں الکوہل کی مقدار صرف 30 فیصد ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ مقدار 70 فیصد ہے۔
حال ہی میں وفاقی کابینہ کی جانب سے سینی ٹائزر کا معیار چیک کرنے کی ذمہ داری ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) سے لے کر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو دینے سے مارکیٹ میں جعلی اور ناقص سینی ٹائزرز کی آمد کا راستہ کھل گیا ہے۔
دنیا بھر کی کمپنیاں عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق سینی ٹائزر بنا رہی ہیں جبکہ پاکستان میں ان ہدایات کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے بلکہ احوال تو یہ ہے کہ دکاندار خود ہی سینی ٹائزر بنانے میں مشغول ہیں جس میں الکوحل کی بہت کم مقدار شامل کی جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا اپنی سفارشات میں کہنا ہے کہ صرف کوالیفائڈ کمپنیوں کو ہی سینی ٹائزر بنانے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ غیرمعیاری اور ناقص ہینڈ سینی ٹائزر نہ صرف وائرس سے بچاؤ کی اہلیت نہیں رکھتا بلکہ جلد کو جلانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
سینی ٹائزر بنانے کیلئے پنجاب میں 16 کمپنیوں کو لائسنس جاری
وفاقی کابینہ نے ذاتی حفاظتی سامان، سینی ٹائزر برآمد کرنے کی منظوری دے دی
پاکستان میں کوئی سرکاری ادارہ نہیں جو سینی ٹائزرز اور ماسکس کا معیار چیک کر سکے
ذرائع نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ کورونا وباء پھوٹنے کے بعد بہت سی کاسمیٹکس کمپنیاں سینی ٹائزر بنانے کی دوڑ میں لگ گئی ہیں اور ان کی خواہش تھی کہ اس حوالے سے نگرانی کی ذمہ داری ڈریپ سے لے کر پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو دے دی جائے۔
ایسا اس لیے تھا کیونکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی معیار پر پورا نہ اترنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی اور بھاری جرمانوں کا اختیار رکھتی ہے جبکہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی صرف معیار کی خلاف ورزی کی نشاندہی اور اس کی اطلاع پولیس کو دے سکتی ہے۔
وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ کاسمیٹکس کمپنیوں نے سیاسی رہنماؤں کے ذریعے سینی ٹائزرز کے معیار کی نگرانی ڈریپ سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو دلائی۔
مزید برآں یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی اس کام کی اہلیت نہیں رکھتی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے وفاقی کابینہ کو یہ ذمہ داری اپنے ادارے کو دینے پر قائل کیا جو کہ غیر قانونی طور پر ہوا کیونکہ ڈریپ رولز 2012 کے تحت وفاقی کابینہ اس کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے پاس سینی ٹائزرز کا معیار چیک کرنے کے لیے ایک بھی کوالیفائڈ شخص نہیں ہے اور یوں کاسمیٹکس کمپنیاں بغیر کسی نگرانی کے سینی ٹائزر بنانے میں مصروف ہیں۔
ذرائع نے نشاندہی کی کہ سینی ٹائزر کے معیار کی نگرانی کی ذمہ داری ڈریپ سے لیکر پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو دینے میں کک بیکس کا عمل دخل ہے۔
ماہرین کے مطابق سینی ٹائزرز کو ڈریپ کے 2012ء کے قوانین اور دنیا بھر میں نان پریسکرپشن ( نسخہ کے بغیر) کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے تاہم الکوحل والے سینی ٹائزرز کے استعمال کے لیے لیبل پر موجود ہدایت نامے کو پڑھنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت اور خود ڈریپ کی گائڈ لائنز میں عوام اور کاسمیٹکس کمپنیوں کو ضروری علم اور مہارت کے بغیر سینی ٹائزر کی تیاری کی اجازت نہ دینے کا ذکر موجود ہے۔
دووسری جانب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائے ڈی اے) بھی ملک میں غیر معیاری سینی ٹائزر کی تیاری روکنے کا مطالبہ کر چکی ہے کیونکہ مارکیٹ میں ان کی موجودگی لوگوں کی زندگیوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔