اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے مقامی طور پر تیار کردہ ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای)، سینی ٹائزرز وغیرہ کی برآمد کی منظوری دی دے تاہم وزارتِ تجارت، وزارتِ صحت، وزارتِ صنعت و پیداوار اور وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی پر مشتمل کمیٹی کو یہ اختیار ہوگا کہ ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی خاص آئیٹم کی برآمد پر پابندی کا فیصلہ کر سکے۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں کابینہ کو شوگر انکوائری رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کے لائحہ عمل اور متعلقہ اداروں کی جانب سے مزید کارروائی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے شوگر انکوائری کا مقصد ان وجوہات اور حقائق کو سامنے لانا تھا جن کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اورعوام پر غیرضروری بوجھ ڈالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری کے نتیجے میں سامنے آنے والے تمام حقائق کی روشنی میں نظام میں موجود خامیوں کی درستگی اور اصلاح کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ انکوائری رپورٹ کی روشنی میں سامنے آنے والے حقائق کا جائزہ لینے کے لئے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو مختلف پہلوﺅں سے رپورٹ کا جائزہ لے گی اور موجودہ نظام بشمول ریگولیڑز کے موثر کردار کے حوالے سے جامع اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب کرے گی تاکہ مستقبل میں عوام کو استحصال اور غیر ضروری قیمتوں میں اضافے کے بوجھ سے محفوظ رکھا جا سکے۔
کابینہ کو صوبوں کی جانب سے گندم کی خریداری کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت اور مستقبل میں طلب و رسد کے تخمینوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مستقبل میں ملک میں گندم اور آٹے کی قلت سے بچنے اور طلب و رسد میں توازن رکھنے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس حوالے سے سفارشات مرتب کرے گی، کمیٹی فلور ملز سے متعلقہ معاملات میں اصلاحات کے حوالے سے سفارشات بھی تجویز کرے گی۔
وزیرِ اعظم نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے قائم ٹاسک فورس کی سفارشات جلد از جلد پیش کی جائیں تاکہ سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے مزید کاروائی کی جا سکے۔
کابینہ کو ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال اور حفاظتی حکمت عملی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، اجلاس میں پبلک ٹرانسپورٹ، مارکیٹوں اورصنعتوں میں وائرس کے حوالے سے مرتب کیے جانے والے ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد پر زور دیا گیا۔
اجلاس میں کورونا ٹیسٹ، ٹریکنگ اور متاثرہ افراد کو قرنطینہ میں منتقل کرنے کے حوالے سے ترتیب دی جانے والی ٹی ٹی کیو حکمت عملی (ٹیسٹنگ، ٹریکنگ ، کورنٹین) کو سراہا گیا۔
کابینہ کو ملک میں ٹڈی دل کی صورتحال ، روک تھام کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور قلیل و طویل المدتی حکمت عملی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ ٹڈی دل کے حوالے سے تمام مطلوبہ وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ ٹڈی دل کے خاتمے کے آﺅٹ آف باکس سلوشن پر غور کیا جائے۔ اس میں مقامی سطح پر عوام کو مراعات فراہم کرنے پر بھی غور کیا جائے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی جانب سے غربت کی تخفیف اور معاشرے کے غریب طبقوں کو کورونا کے منفی معاشی اثرات سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی حکمت عملی اور اقدامات کو سراہا گیا ہے۔
کابینہ نے محترمہ لبنیٰ فاروق ملک کو ڈائریکٹر جنرل فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، شکیل احمد منگنیجو کو دسمبر 2020 تک چئیرمین پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، مسعود نبی کو منیجنگ ڈائریکٹر گورنمنٹ ہولڈنگز (پرائیویٹ) لمیٹیڈ تعینات کرنے جبکہ وسیم مختار(ایڈیشنل سیکرٹری پاور ڈویژن) کو چیف ایگزیکیٹو آفیسر سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (گارنٹی) لمیٹڈ کا اضافی چارج دینے کی منظوری دیتے ہوئے وزارتِ پاور کو ہدایت کی کہ اس اسامی کو مستقل پُر کرنے کا عمل آئندہ تین ماہ میں مکمل کیا جائے۔ کابینہ نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے حوالے سے ایسینشل سروسز ایکٹ 1952کے نفاذ کی منظوری دی۔
کابینہ نے کورونا سے حفاظت کے لئے مقامی طور پر تیار کیے جانے والے ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای)، سینی ٹائزرز وغیرہ کی برآمد کی منظوری دی۔ تاہم وزارتِ تجارت، وزارتِ صحت، وزارتِ صنعت و پیداوار اور وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر مشتمل کمیٹی کو یہ اختیار ہوگا کہ ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی خاص آئیٹم کی برآمد پر پابندی کا فیصلہ لے سکے گی۔
کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 20 اور 21 مئی کے اجلاسوں میں لیے گئے فیصلوں کی توثیق بھی کی، ان فیصلوں میں خصوصی اقتصادی زونز کے حوالے سے مراعاتی پیکیج، ملک میں سمارٹ فون بنانے کے حوالے سے پالیسی، وزیرِ اعظم کوویڈ- 19 ریلیف فنڈ، ایل پی جی پر پٹرولیم لیوی ، 200 ارب مالیت کے سکوک بانڈز کا اجراء جیسے اہم شعبہ جات کے حوالے سے فیصلے کیے گئے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ کورونا کی وجہ سے اپریل میں ملکی برآمدات 54 فیصد کم ہوئیں لیکن مئی میں 34 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ترسیلات زر کی مد میں جاری مالی سال کے دوران 18.8 ارب ڈالر موصول ہوئے، اپریل کے آخر تک زرمبالہ کے ذخائر 18.7ارب ڈالر رہے۔ جاری مالی سال کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 3.3 ارب ڈالر رہا جو جی ڈی پی کا 1.5 فیصد ہے گذشتہ سال (2018-19) میں یہ خسارہ 11.4 ارب ڈالر یعنی جی ڈی پی کا 4.7 فیصد تھا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ مالی سال 2019-20 میں برآمدات 16.4ارب ڈالر رہیں جبکہ درآمدات 19.7ارب رہیں۔ سروس ٹریڈ بیلنس 2.6ارب رہا۔ فسکل سیکٹر کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کابینہ کو بتایا گیا کہ کورونا وباء کی وجہ سے ایف بی آر کی وصولیاں متاثر ہوئی ہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود پرائمری بیلنس مثبت رہا، (پرائمری بیلنس سے مراد اگر قرضوں کی ادائیگیوں کو نکال دیا جائے تو ملک کی آمدنی اخراجات سے زیادہ ہے) ایسا ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پرائمری بیلنس مثبت رہے اور یہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور فنانشل ڈسپلن کی پابندی کا نتیجہ ہے۔
کابینہ کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کے تحت کیے جانے والے اخراجات سے بھی تفصیلی طور پر بریف کیا گیا۔ کابینہ کو ملک میں کپاس، گنا اور مکئی کی پیداوار، بڑی صنعتوں کی پیداوار اور افراطِ زر کی شرح کے حوالے سے بھی تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ افراط زر جنوری میں 14.5 تھا جبکہ یہ شرح اپریل میں 8.5 پر آ چکی ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بتایا گیا کہ مالی سال 2019-20 میں 1.864ارب ڈالر کی مجموعی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ مالی سال 2018-19 میں یہ محض 403 ملین ڈالر رہی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ آئندہ بجٹ موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں پیش کیا جائے گا، اس حوالے سے وزیرِ اعظم نے کہا کہ معاشی استحکام اور اصلاحات کا عمل بلا تعطل جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے وزراء کو ہدایت کی کہ موجودہ حالات اور معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وزارتوں اور سرکاری محکموں میں غیر ضروری اخراجات کم کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے۔
وزیرِ اعظم نے اس امر پر زور دیا کیا کہ اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے اور اصلاحات کے عمل کو مزید آگے بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے۔
وزیرِ اعظم نے کراچی میں پی آئی اے مسافر طیارے میں شہید ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ دلی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی جان کا نقصان ناقابل تلافی ہے ہم مشکل کی اس گھڑی میں غم زدہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔