آخر یہ پیسہ جاتا کہاں ہے؟ اس بات سے پریشان ہیں تو آمدن اور اخراجات کے ‘حساب کتاب’ کا یہ آسان طریقہ اپنائیں

3008

ممکن ہے آپ بھی ہر ماہ خود سے یہ سوال پوچھتے ہوں کہ آخر آپ کا پیسہ جاتا کہاں ہے؟ اس سوال کا پوچھنا کوئی شرم کی بات نہیں کیونکہ یہ تقریباً ہر ایک کا مسئلہ ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پیسہ سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، مسئلہ اس بات کا حساب رکھنے کا ہے کہ کہاں کتنے پیسے خرچ ہوئے اور کیا یہ وہاں خرچ ہونے چاہیں تھے یا اس پیسے کا کوئی اور مصرف ہونا چاہیے تھا؟

یہ مسئلہ زیادہ تر تنخواہ دار طبقے کو درپش ہوتا ہے، بزنس رپورٹر ہونے کے ناطے میری صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ اگرچہ اس بات پر نظر رکھنا کہ سرکاری اور نجی شعبے کہاں اور کیسے پیسہ لگا رہے ہیں ہمارے کام کا حصہ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں پیسے کی کمی کے مسائل کا سامنا نہیں ہوتا۔

بہت سے لوگ کہیں گے کے پیسے کا حساب کتاب بآسانی رکھا جا سکتا ہے مثال کے طور پراگر آپ پرانے خیالات کے حامل ہیں تو اپنی آمدن اور اخراجات کی تفصیل کسی ڈائری میں لکھ کر حساب کتاب رکھ سکتے ہیں یا اگر آپ نئے زمانے کی سہولت سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو یہ کام مائیکرو سافٹ ایکسل کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ان دونوں طریقوں سے آمدن اور اخراجات کا حساب کتاب تو رکھا جاسکتا ہے مگر یہ کام انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہے۔

اگر آپ کسی ڈائری میں اپنا حساب کتاب رکھتے ہیں تو آپ کو کیلکولیٹر کی ضرورت پڑے گی اور اگر آپ اس مقصد کے لیے ایکسل کا سہارا لیتے ہیں تو اس کے لیے بھی اچھا خاصا وقت درکار ہوگا۔  اگر کوئی ایسا کر بھی لیتا ہے تو پھر بھی اس طریقے سے اپنے اخراجات کا جائزہ لینا اور اس کی رسیدیں اکٹھی کرنا ایک تھکا دینے والا کام ہے۔

اگرچہ پیسے کو سنبھالنا اور بجٹ کے حساب سے چلنا مشکل نہیں ہونا چاہیے مگر پھر بھی ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ایسا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

حساب کتاب رکھنے کا کام آسان بنانے کے لیے دنیا بھر میں کئی موبائل ایپس لانچ کئی گئی ہیں جو کہ آمدن اور اخراجات کا حساب بنا کسی دقت کے رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ایپ ’حساب کتاب‘ بھی ہے جو کہ پاکستان میں بننے والی اپنی نوعیت کی پہلی ایپ ہے۔

اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس کا مقصد لوگوں کو ان کے مالی معاملات کے حل کیلئے آسانی فراہم کرنا ہے، اگرچہ اس ایپ کو بنانے والوں نے کام کا آغاز چھوٹے اور درمیانے درجے کی انٹرپرائز کو ای آر پی سلوشنز کی فراہمی سے کیا مگر اب یہ عام صارفین کو بھی اپنی سروسز فراہم کر رہے ہیں۔

 ’حساب کتاب‘ کا بطور پروڈکٹ تجزیہ 

اس ایپ کے بارے میں مزید معلومات لینے سے پہلے ہم نے اسے 15 دن تک استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی افادیت کا جائزہ لیا جا سکے۔

یہ ایپ گوگل پلے سٹور اور ایپل کے ایپ سٹورز پر بآسانی دستیاب ہے اور ایک مرتبہ اسے فون میں انسٹال کرنے کے بعد اس چیز کا اندراج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ آپ کی آمدنی کتنی ہے اور آپ کے بنک اکاؤنٹس میں کتنی رقم موجود ہے ۔

اس کے بعد اپنے اخراجات جیسا کہ موبائل فون، انٹرنیٹ چارجز، پارکنگ چارجز کے علاوہ مہینے میں پیش آنے والے غیر متوقع اخراجات کا اندراج بھی کیا جا سکتا ہے۔

اگلا کام بجٹ کی تشکیل ہے جس کے لیے مختلف کیٹیگریز دی گئی ہیں اور صارف اپنی مرضی سے بھی کوئی کیٹیگری شامل کر سکتا ہے۔

عبدالحسیب، حساب کتاب کے شریک بانی

سب سے زیادہ متوجہ کرنے والی چیز مالی طور پر مستحکم رہنے کی تجاویز ہیں جن کا تعلق بنکوں کی سکیموں سے ہوتا ہے۔  اس کے علاوہ اس ایپ میں مخلتف سپرمارکیٹس کی جانب سے اشیائے ضروریہ کی ڈیلز بھی موجود ہوتی ہیں جنھیں حاصل کرکے پیسے بچائے جا سکتے ہیں۔

اگر آپ کا بیرون ملک سفر کا ارادہ ہے تو یہ ایپ آپ کو دوسری کرنسی میں بچت کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ایپ کے انفو گرافکس صارف دوست اور اس کی نیوی گیشن بھی آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے، اس ایپ کے ذریعے بجٹ بنا کر اور اس کی نگرانی کرکے ہم اخراجات کے باوجود 10 فیصد تک بچت کرسکتے ہیں۔

اس ایپ کو استعمال کرنے کا بلاشبہ فائدہ ہے مگر حساب کتاب کے لوگ مارکیٹ میں رہنے کے لیے کونسا بزنس ماڈل استعمال کر رہے ہیں؟

انٹرنیٹ قوانین کے پروفیسر  Jonathan L. Zittrain اور ہارورڈ لاء سکول میں انٹرنیشنل لاء پڑھانے والے پروفیسر George Bemis کہتے ہیں کہ’’ جب کوئی چیز آن لائن مفت میں دستیاب ہو تو آپ صارف نہیں پراڈکٹ ہوتے ہیں۔”

لیکن پراڈکٹ میرے اور آپ کے لیے مفت ہے مگر ادارے کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟

اس پراڈکٹ کے بزنس ماڈل پر غور کرنے سے پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا اس کا استعمال محفوظ بھی ہے یا نہیں؟ کیا اس کے استعمال سے پرائیویسی خطرے میں تو نہیں پڑ جاتی ؟ اگر آپ پراڈکٹ ہیں تو کہیں یہ ایپ آپ کا ڈیٹا تو اکٹھا نہیں کر رہی؟

’حساب کتاب‘ کے گلوبل ہیڈ یاسرالیاس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کی پرائیویسی پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ ڈیٹا صارف کی ملکیت ہے اسی لیے ہم کمپنیوں کو صرف صارفین کے رویے اور رجحانات بابت معلومات دیتے ہیں کیونکہ ہم ڈیٹا سینٹرک کمپنی ہیں جو کاروباروں کیساتھ مل کر ان کے key performance indicators کو سمجھتے ہیں اور انھیں فیصلہ سازی کے لیے قابل عمل انسائٹس دیتے ہیں۔”

’حساب کتاب ‘ کے شریک بانی اور بزنس لیڈ عبدل حسیب کا کہنا ہے کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ صارف کے ڈیٹا کی حفاظت بہت اہمیت کی حامل ہے اور اگرچہ ہم مالیاتی ادارہ نہیں ہیں مگر پھر بھی ہم اس چیز کو یقینی بناتے ہیں کہ صارف کے ڈیٹا کو پی اے- ڈی ایس ایس اور پی سی آئی – ڈی ایس ایس کے مطابق بنک کی سطح کی سیکیورٹی فراہم کی جائے۔’

پیمنٹ ایپلی کیشن ڈیٹا سیکیورٹی سٹینڈرڈ ( پی اے – ڈی ایس ایس ) اور پیمنٹ کارڈ انڈسٹری ڈیٹا سیکیورٹی سٹینڈرڈ ( پی سی آئی – ڈی ایس ایس ) دراصل پیمنٹ کارڈ انڈسٹری سیکیورٹی سٹینڈرڈز کی جانب سے بنائے گئے سیکیورٹی کے دو معیار ہیں۔

پیمنٹ کارڈ انڈسٹری سیکیورٹی سٹینڈرڈز کا قیام ماسٹر کارڈ، ویزا، امریکن ایکسپریس، جے سی بی انٹرنیشنل اور ڈسکور فنانشل سروسز کی جانب سے عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ڈیٹا سیکیورٹی کے معیار کو قائم رکھنا تھا۔

’ حساب کتاب ‘ کے لیے ڈیٹا اتنا ضروری کیوں ہے؟

 اگرچہ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے ڈیٹا کا غیر قانونی استعمال نہیں کیا جاتا مگر پھر بھی آج کی دنیا میں ڈیٹا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

’ حساب کتاب ‘ کے گلوبل ہیڈ یاسر الیاس کہتے ہیں کہ ایک دن ڈیٹا کاروباری دنیا میں اہمیت کے لحاظ سے تیل کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ وہ کاروبار جو اپنے گاہگوں کی سمجھ بوجھ کم رکھتے ہوں گے وہ ان کاروباروں سے مات کھا جائیں گے جن کے پاس اپنے گاہکوں اور ان کے رویے اور عادات و اطوار کا ڈیٹا موجود ہوگا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ڈیٹا کی اہمیت بہت زیادہ ہے چاہے وہ مالیاتی ہو یا غیر مالیاتی۔ جو ڈیٹا انسائٹ ’حساب کتاب‘  اپنے گاہکوں کو فراہم کرتا ہے وہ انھیں اپنے کسٹمرز کی 360 ڈگری کی سمجھ بوجھ فراہم کرتا ہے۔

’ حساب کتاب ‘ کے شریک بانی عبدالحسیب کا کہنا ہے کہ ان کی پراڈکٹ اس لیے بھی منفرد ہے کیونکہ پاکستان ایک کیش بیسڈ اکانومی ہے۔ بنک اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اے ٹی ایم سے نکالا جانے والا پیسہ کس مقصد کے لیے استعمال ہوگا مگر ’ حساب کتاب ‘ ایپ ایسا کر سکتی ہے۔ صارف کی جانب سے ایپ میں درج کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے یہ ایپ بتا سکتی ہے کہ پیسہ کہاں اور کتنا خرچ ہوا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس طرح ڈیٹا کی بنیاد پر بنک اور کاروبار کسی پراڈکٹ کی خریداری کو کسی صارف کے لیے پر کشش بنا سکتے ہیں۔

‘حساب کتاب’ ایپ اصل میں کرتی کیا ہے؟

بنیادی طور پر حساب کتاب لوگوں کو ایک ایسی موبئل فون ایپلی کیشن فراہم کرتا ہے جو انھیں بجٹ بنانے،  پنی آمدن اور اخراجات پر نظر رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یاسر الیاس کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو مالی طور پر سمجھ دار بنا کر انہیں ان کی آمدن اور اخراجات کی عادات سے بھر پور فائدہ اُٹھانے میں مدد دیتے ہیں۔ تاہم ’حساب کتاب‘ کے گاہکوں کے نزدیک یہ ایپ ان کے مالی ڈیٹا کو ان کے اخراجات کے پیٹرن کو سمجھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

یاسر الیاس کے مطابق بہت سے لوگوں کی طرح وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ڈیٹا کسی بھی انڈسٹری کی بنیادی ضرورت ہے، کمپنیاں ڈیٹا کے حصول کے لیے ریسرچ فرمز کو لاکھوں روپے دیتی ہیں جو روایتی طریقے سے ڈیٹا حاصل کرتی ہیں جبکہ ’حساب کتاب‘ اس طرح سے منفرد ہے کہ یہ ٹھیک وقت میں ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے اور ایسا آبادی کے محدود حصے کے سیمپل کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے تمام صارفین کے ڈیٹا کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی ٹیم ڈیٹا کو بھرپور بنانے کے لیے درست پارٹنرز کیساتھ مل کر کام کرتی ہے ۔

حسیب اور یاسر الیاس نے پرافٹ اردو کو ڈیٹا کے حصول کے لیے ٹیلی نار کے ساتھ اپنے اشتراک کے بارے میں بھی بتایا۔  ان کا کہنا ہے کہ ایک بڑے اخبار نے لوگوں کی جانب سے کھانے پینے کی مد میں خرچے کے بارے میں ایک آرٹیکل شائع کیا جس کے نتائج ہمارے نتائج جیسے ہی تھے مگر اصل فرق اس حوالے سے ڈیٹا اکھٹا کرنے میں لگنے والے وقت کا تھا، مذکورہ اخبار کو اس حوالے سے ڈیٹا اکھٹا کرنے میں لازمی طور پر بہت وقت لگا ہو گا۔

یاسر الیاس، گلوبل ہیڈ حساب کتاب

جبکہ ’حساب کتاب‘ نے یہ ڈیٹا کم سے کم وقت میں اکٹھا کیا اور اس کام کے لیے اسے روائتی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہر گز پیش نہیں آئی۔ حسیب نے کہا کہ کاروباری ماحول ان دنوں مسابقت سے کہیں آگے نکل گیا ہے اور اپنی مصنوعات کو صارفین کے بڑی تعداد کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ وہ وقت گزر گیا جب ہر صارف کے لیے ایک ہی پراڈکٹ بنائی جاتی تھی، اب ہر صارف منفرد ہوتا ہے لہٰذا کاروبار کی ترقی اس بات میں ہے کہ اس چیز کو سمجھا جائے۔

ایک مثال دیتے ہوئے حسیب نے بتایا کہ ان کا واسطہ صارفین کے ایسے گروہ سے پڑا جو کہ اپنی آدھی آمدن فیول کی مد میں خرچ کر دیتے تھے، اگرچہ کبھی اس بات کے اشارے نہیں ملے کہ وہ کبھی سیر و تفریح کے لیے گئے ہوں۔ تاہم تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ لوگ معروف ٹیکسی کمپنی کے ملازم تھے، اس تجزیے کے بعد کئی بنک ان افراد کی ضرورت سمجھنے کے قابل ہوئے اور انہوں نے ان لوگوں کو دیگر مصنوعات کے بجائے فیول سیور کارڈز آفر کیے، یوں یہ صورتحال بنکوں اور ان افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی کیونکہ ٹیکسی ڈرائیور حضرات کے ہاتھ بچت کا ذریعہ آیا جبکہ بنکوں کو کارڈ کی فروخت کا موقع مل گیا۔

’حساب کتاب‘ کا بنکوں کیساتھ اشتراک 

عبدالحسیب کہتے ہیں کہ شروع میں یہ ایپلی کیشن اکیلے کام کرتی تھی مگر صارفین کی تعداد میں اضافے کی بدولت بنکوں کو اس کی افادیت کا اندازہ ہوا۔ یہ ایپلی کیشن پرسنل فنانس مینجیر سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ یہ مخلتف اداروں کو گاہکوں کو بہتر خدمات کی فراہمی کے لیے اعدادوشمار بھی فراہم کرتی ہے جن کی بدولت بنکوں کے ریلیشن شپ مینیجرز اور برانچ مینیجرز زیادہ سے زیادہ صارفین کو اپنی پروڈکٹس فروخت کر کے منافع میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

’حساب کتاب‘ کے گلوبل ہیڈ یاسر الیاس کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پراڈکٹ دنیا کے 160 ممالک میں دستیاب ہے مگر چونکہ یہ پاکستان میں بنی ہے اس لیے ہماری زیادہ توجہ مقامی سطح پر خدمات فراہم کرنے پر ہے۔ ہر ملک میں یہ ایپ وہاں کی ضرورت کے مطابق کام کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فلپائن میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ لوگ بچت کو ذہن میں رکھ کر اخراجات کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں لوگ اخراجات کے بعد بچ جانے والی رقم کو بچت سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اس بنیاد پر جو اعدادوشمار ہم فلپائن میں بنکوں کو فراہم کریں گے وہ پاکستانی بنکوں سے مختلف ہوں گے۔

الیاس نے بتایا کہ اس وقت وہ ملک کے تمام بنکوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ایک ریٹیل بنک کو اپنی خدمات فراہم بھی کر رہے ہیں۔ ’حساب کتاب‘ کی ٹیم بنکوں کو وائٹ لیبل پرسنل فنانس مینجمنٹ سلوشنز فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بینکنگ انڈسٹری کو اس ایپ میں دلچسپی کیوں ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں یاسر الیاس کا کہنا ہے کہ حساب کتاب اپنی ایپلی کیشن کے ذریعے بنکوں کو ڈیٹا فراہم کرتی ہے جو انہیں کسٹمرز کے رجحانات کو سمجھنے اور ان کے مطابق مصنوعات بنانے اور پیش کرنے میں مدد دیتا ہے۔

یاسر الیاس کے مطابق حساب کتاب کی ٹیم لوگوں کے خرچ کرنے کے طریقوں پر نظررکھتی ہے اور اسے سمجھنے کے بعد مختلف منصوبوں کی مدد سے ایپلی کیشن کے کام کو بہتر بنایا جاتا ہے اور بعد ازاں ان سائٹس کو وائٹ لییل سلوشنز کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔

یاسر الیاس اور حسیب دونوں کا تعلق چونکہ فن ٹیک سے ہے اس لیے ان کی زیادہ توجہ مالیاتی انڈسٹری پر رہتی ہے، یاسر الیاس کے مطابق پاکستان میں 35 فیصد افراد بنکوں کے ذریعے لین دین کرتے ہیں جبکہ ہمسایہ ممالک میں یہ تناسب 67 فیصد ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘حساب کتاب’ صرف بنکوں کے ساتھ مل کر کام نہیں کرتی بلکہ اس میں مختلف اداروں جیسا کہ ‘گو لوٹ لو’، ‘بوگو واؤچ 360’ وغیرہ کی ڈیلز کا فیچر بھی شامل ہے اور ہماری ٹیم ان کمپنیوں کے ساتھ بامعنی نتائج کے حصول کے لیے کام کرتی ہے۔

جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں سٹارٹ اپس نے یہ جان لیا ہے کہ تعاون اور پارٹنزشپ ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ اسی لیے حساب کتاب کو بھی 15 سے زائد کمپنیوں کے اشتراک سے اسی حکمت عملی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔

کیا یہ بزنس ماڈل کام بھی کرتا ہے؟

حساب کتاب کی ٹیم سمجھتی ہے کہ ڈیٹا کا روایتی استعمال جلد ہی قصہ پارینہ بن  جائے گا اور اس کی جگہ نیا کم لاگت اور زیادہ فائدہ مند طریقہ لے لے گا، عبدالحسیب کہتے ہیں کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کام کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی ایپ استعمال کرنے میں نہایت آسان ہے۔

یاسر الیاس کا کہنا ہے کہ مقامی طور پر پرسنل فنانس مینجمنٹ کے شعبے پر ابھی کافی کام ہونا باقی ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں بہت زیادہ صارفین کا ہماری پراڈکٹ کو استعمال کرنا اس چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ‘حساب کتاب’ کی ترقی کی شرح شاندار ہے، رواں سال تو کافی بہتر رہا ہے۔

دنیا کے 160 ممالک میں ‘حساب کتاب’ کے ساڑھے چار لاکھ سے زائد صارفین بن چکے ہیں اور کمپنی عالمی سطح پر شراکت داروں کا ایک بڑا نیٹ ورک بنانے میں بھی کامیاب رہی ہے۔

یاسر الیاس اس ایپ کے آغاز سے ہی کامیابی کیلئے پُرامید تھے، اس لیے اسے ڈیزائن کرتے وقت جدت، سادگی اور آسانی کو بنیادی اہمیت دی گئی، انہوں نے بتایا کہ ہم باقاعدگی سے مشاہدہ کرتے ہیں کہ صارفین ہماری پراڈکٹ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور اس مشاہدے کی بنا پر ہم اسے بہتر بناتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 18 سے 35 سال کی عمر کے صارفین ایپ میں سوائپ فنکشن کو پسند کرتے ہیں جبکہ 35 سے 60 سال کی عمر کے صارفین کسی بھی مقصد کے لیے آئیکون پر کلک کرنا پسند کرتے ہیں۔ ’حساب کتاب‘  بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی فنڈنگ سے ڈیجیٹل فنانشل سروسز کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے کارانداز کا ایک پراجیکٹ بھی حاصل کر چکی ہے۔

یاسر الیاس کا ماننا ہے کہ اس وقت پاکستانی مارکیٹ میں مائیکرو فنانس کے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں لہٰذا دانش مندی اسی میں ہے کہ مستقبل میں کسی مائیکرو فنانس ادارے کے ساتھ اشتراک کیا جائے جو دونوں اداروں کے لیے مفید ہو گا۔

تو کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ حساب کتاب جیسی پراڈکٹس کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈیٹا کی بنیاد پر کام کرنے والے سلوشنز کی طرف رجحان بڑھے گا؟

حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مستقبل میں بھرپور مسابقتی ماحول پیدا ہوگا تاہم یہ ایپ اس مسابقت کی دوڑ میں سب سے آگے ہوگی، جہاں ایپ صارفین کو یہ بتاتی ہے کہ ’ان کا پیسہ کہاں جا رہا ہے‘ وہیں وہ کاروباروں کو یہ بھی معلومات دیتی ہے کہ انہیں کیا چیز کس کو اور کس انداز میں بیچنی چاہیے۔’

’حساب کتاب‘ کے بارے میں ذاتی رائے 

 دو ہفتوں کے استعمال کے بعد میں حساب کتاب کی خوبیوں سے متاثر ہوئی ہوں اور اس کا استعمال تب تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک بہتر متبادل نہیں مل جاتا۔

ڈیٹا کے حوالے سے ’حساب کتاب‘ پر مجھے اعتماد ہے؟ جی بالکل! کیونکہ اس کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی میری معلومات چوری کر سکے۔

تاہم اُمید ہے کہ اس کے استعمال کی بدولت میرے فون پر اشتہاری پیغامات کا ڈھیر نہیں لگے گا، بہرحال اس بات کا اطمینان ہے کہ میرے مالی معاملات بہتر انداز میں سنبھالے جا رہے ہیں اور کاروبار اور کمپنیاں مجھے بطور گاہک بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here