ہفتے میں دو دن مکمل لاک ڈائون، مخصوص شعبوں کے علاوہ سب کچھ کھلا رہے گا

ٹیکس وصولی میں 30 فیصد کمی، پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے، یورپ، چین جیسے لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو سکتے، وزیر اعظم عمران خان 

1035

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کی موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، مخصوص شعبوں کے علاوہ سب کچھ کھلا رہے گا جبکہ ہفتے میں دو دن لاک ڈائون کیا جائے گا۔

کورونا لاک ڈاؤن سے متعلق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ صوبائی حکام ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ اجلاس میں لاک ڈاؤن برقرار رکھنے یا نہ رکھنے سمیت تمام آپشنز کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن ہی رہےگا، کاروبار اور ٹرانسپورٹ پہلے سے طے شدہ اصولوں کے مطابق ہی چلے گی، ٹرینوں کی تعداد 30 سے بڑھا کر 40 کر دی گئی ہے۔۔

وزیراعظم کی صحافیوں سے گفتگو

قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) کے اجلاس  کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) میں روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہو رہے ہیں، کورونا کی پاکستان میں موجودگی کے فوراً  بعد این سی سی کا اجلاس طلب کیا۔

پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے حالات چین اور یورپ سے یکسر مختلف ہیں۔ ہمارے ملک کے پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان افراد کے اہلخانہ کو بھی ساتھ ملائیں تو یہ 12 سے 15 کروڑ لوگ بن جاتے ہیں، اڑھائی کروڑ ایسے افراد ہیں جو اگر خود نہ کمائیں تو گھر والوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے۔ ہماری یہ سوچ تھی کہ لاک ڈاؤن اگر کیا اور لوگ اکٹھے نہ ہوئے تو کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم ہو سکتا ہے، مکمل لاک ڈاؤن اس کا علاج نہیں ہے، لوگوں کے زیادہ جمع ہونے سے یہ تیزی سے پھیلتا ہے، سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے بھی کمی آ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ، یورپ اور اٹلی میں کورونا وائرس کی وجہ سے ڈاکٹروں اور نرسوں پر دباؤ بڑھا، لاک ڈاؤن کا مقصد یہ تھا کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم ہو لیکن دیہاڑی دار طبقے کا بھی ہمیں خیال تھا کہ ان کا کیا بنے گا۔

عمران خان نے کہا کہ تحقیق پر پتہ چلا کہ اڑھائی کروڑ افراد دیہاڑی دار ہیں، مکمل اور سخت لاک ڈاؤن کی صورت میں دیہاڑی دار اور غریب افراد زیادہ متاثر ہوتے، جزوی لاک ڈاؤن  کا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنا تھا، امیر اور غریب افراد کے لیے  لاک ڈاؤن کے اثرات مختلف ہیں کیونکہ ملک میں آبادی کا ایک بڑا حصہ کچی آبادیوں میں رہتا ہے اور کراچی میں 30 فیصد کچی آبادیاں ہیں، وہاں اس کے اثرات مختلف ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف امیر لوگ لاک ڈاؤن کے لئے شور مچا رہے تھے اور دوسری طرف غریب طبقہ تھا جو محلوں میں رہتا ہے، ان میں چھابڑی والے، ٹیکسی والے اور رکشہ ڈرائیور اور دیہاڑی دار شامل ہیں، ہم نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے ساتھ ساتھ بھوک و افلاس کو بھی روکنا تھا۔

ہمیں کورونا کے ساتھ ہی رہنا ہو گا

وزیراعظم نے کہا کہ ویکسین کے بننے تک  کورونا وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں لگ رہا، ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ ہی رہنا ہو گا، کورونا وائرس سے متاثر غریب افراد اور معیشت کیلئے 8 ارب ڈالر کا پیکج دیا۔

ہم یورپ اور چین جیسے لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو سکتے، میں جیسا لاک ڈاؤن چاہتا تھا ویسا نہیں ہوا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے خود فیصلے کر رہے تھے، ڈاکٹرز اور امیر طبقے کا موقف کچھ مختلف تھا، غریب لوگوں کی آواز کوئی سامنے آ رہی تھی، بدقسمتی سے جس طرح کا لاک ڈاؤن ہوا اس سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نقصان ہوا، ہم نے یونیورسٹیاں، سکول اور شادی ہال بند کر دیتے لیکن کاروبار کبھی نہ روکتے کیونکہ ہم نے صورتحال میں توازن پیدا کرنا تھا، جب تک ویکسین نہیں بنے گی کورونا وائرس کا خاتمہ نہیں ہو گا اس کے ساتھ ہی ہم نے رہنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ایک لاکھ لوگ کورونا سے مر چکے ہیں اور اب انہوں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ لاک ڈاؤن اگر ختم نہ کیا تو معیشت کو نقصان ہو گا حالانکہ انہوں نے تین ہزار ارب ڈالر کورونا کا پھیلاؤ روکنے اور معیشت کے استحکام کے لئے دیئے ہیں، ہم آٹھ ارب ڈالر دے چکے ہیں اور مزید بھی مدد کرنا چاہتے ہیں، امیر ترین ممالک نے بھی لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ لاک ڈاؤن کھلے گا تو یہ وائرس دوبارہ پھیلے گا جس طرح کہ سنگاپور اور جنوبی کوریا میں ہوا ہے۔

اموات بڑھیں گی، عوام احتیاط کریں

وزیراعظم نے کہا کہ آنے والے دنوں میں کورونا نے مزید بڑھنا ہے اور افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ شرح اموات میں بھی اضافہ ہو گا تاہم عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ایس او پیز پر عمل کریں اگر اس طرح نہیں کریں گے تو اپنا نقصان ہو گا اور وائرس پھیلے گا، اس سلسلے میں ایس او پیز ہم دے رہے ہیں، ایک نیگٹیو لسٹ بھی بنائی ہے جدھر خطرہ زیادہ ہے وہاں پر لاک ڈاؤن کریں گے۔

سیاحت کا شعبہ کھولنا ضروری

وزیراعظم نے کہا کہ سیاحت کے شعبے کو اس لئے بھی کھولنا چاہیے کہ اس سے وابستہ افراد کی گرمیوں کے تین چار مہینوں میں آمدنی ہوتی ہے اور اگر لاک ڈاؤن میں یہ عرصہ گزر گیا تو ان لوگوں کے پاس سردیوں کے لئے کچھ نہیں ہو گا۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا  حکومتیں ایس او پیز بنا کرسیاحتی شعبہ کھولیں گی۔

ذمہ دار قوم بننا ہوگا

انہوں نے کہا کہ اگر غربت سے بچنا ہے اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا ہے تو ہمیں ذمہ دار قوم کے طور پر اپنا فریضہ انجام دینا ہو گا، اس طرح ہسپتالوں پر بھی دباؤ نہیں پڑے گا اور معاشرہ بھی کورونا کے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے بھی سخت لاک ڈاؤن کیا تو غریب افراد کے لئے مسائل پیدا ہوئے، شرح اموات میں بھی اضافہ ہوا، ممبئی کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے جس کے بعد بھارت بھی لاک ڈاؤن کھولنے پر مجبور ہو گیا۔

50 فیصد سے زائد وینٹی لیٹرز دستیاب

وزیراعظم نے کہا کہ ملک اور غریب عوام کی خاطر ایس او پیز پر عمل کرنا چاہیے، ہم نے دس لاکھ کی ٹائیگر فورس بنائی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں میں کورونا وائرس سے متعلق لوگوں میں شعور بیدار کرے۔ انہوں نے کہا کہ ذیابیطس، بلند فشار خون والے مریض اور بزرگوں  کو کورونا سے زیادہ خطرہ ہے، ابھی بھی شہروں میں 50 فیصد سے زائد وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں اور کہیں اس سے زیادہ بھی ہیں، اس سلسلے میں ہم اپنی تعداد بڑھا رہے ہیں اور وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی بڑھائی جائے گی۔

طبی عملے کو خراج تحسین

وزیراعظم نے کہا کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کو درپیش مشکلات کا مکمل احساس ہے، ڈاکٹرز اور طبی عملے کے ساتھ الگ سے ملاقات کروں گا، ووہان میں ڈاکٹروں اور نرسوں نے قربانیاں دیں، پہلے سے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی فکر ہے، اٹلی کے وزیراعظم سے بھی بات ہوئی ہے، انہوں نے بھی اپنے طبی عملے کی قربانیوں کی ذکر کیا کیونکہ یہ لوگ فرنٹ لائن پر جہاد کرنے والے ہیں، لاک ڈاؤن کے حوالے سے بھی ان کے موقف کا علم ہے اور ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیسے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مدد کریں۔

ٹیکس وصولی میں 30 فیصد کمی

عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نچلے طبقے کی مالی معاونت کی ہے لیکن اور مزید بھی کرے گی لیکن ہمارے حالات ایسے نہیں ہیں کہ اس طرح مستقل طور پر کرتے رہیں، کورونا وائرس کی صورتحال کے اثرات ہماری معیشت پر بھی پڑے ہیں، ٹیکس وصولی میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے، برآمدات اور ترسیلات زر بھی کم ہو گئی ہے، سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کو واپس لائیں گے

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل سے بھی مکمل آگاہ ہوں، ابتداء میں پاکستان میں 80 فیصد کورونا کیسز بیرون ملک سے آئے۔ صوبوں کو خدشہ تھا کہ باہر سے آنے والے پاکستانیوں سے وائرس مزید پھیلے گا، آج فیصلہ کیا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو واپس لائیں گے، واپس آنے والے پاکستانیوں کا صرف کورونا ٹیسٹ ہو گا اور جن کا ٹیسٹ پازٹیو آیا، وہ گھروں  پر قرنطینہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لئے پروازوں کی تعداد بڑھائیں گے۔

عوام سے اپیل

وزیر اعظم نے ایک بار پھر عوام سے اپیل کی کہ وہ احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کریں جس سے ہمیں ہسپتالوں پر دباؤ کم کرنے اور وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملے گی، جن شرائط پر کاروبار کھولا جا رہا ہے ان پر عمل کرنا چاہیے، وفاقی وزیر اسد عمر (آج) منگل کو این سی او سی کے اجلاس کے بعد مزید تفصیلات بیان کریں گے اور روزانہ کی بنیاد پر بھی معلومات عوام کو فراہم کی جائیں گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here