15 سال تک کے 4 کروڑ 40 لاکھ بچے سگریٹ نوشی کر رہے ہیں، عالمی ادارہ صحت

تمباکو نوشی کرنے والوں میں سے نوے فیصد اٹھارہ سال سے کم عمر افراد ہیں، کورونا کے دوران سگریٹ ساز کمپنیاں اپنے لوگو ماسک پر ڈال رہی ہیں

858

جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ سگریٹ ساز کمپنیاں جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنانے اور انھیں سگریٹ نوشی پر راغب کرنے کے لئے مہلک ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں، 13 سے 15 سال کی عمر کے 44 ملین (4 کروڑ 40 لاکھ) بچے سگریٹ نوشی کررہے ہیں جبکہ ٹین ایجرز (19 سال سے کم عمر) افراد کو شامل کرنے سے یہ تعداد کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے جمعہ کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تمام شعبے تمباکو اور اس سے متعلقہ صنعتوں کی مارکیٹنگ کی تدبیروں کو روکنے میں مدد کریں جو بچوں اور نوجوانوں کو اپنا شکار بناتے ہیں، کچھ ممالک میں آپ سپر مارکیٹوں میں تمباکو کی مصنوعات کو کینڈی کے قریب پاتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ سکولوں میں جا کر چھوٹے بچوں کو ای سگریٹ کے عدم استعمال بارے تعلیم دی جائے، ترقی پذیر ممالک میں بچوں کو مفت سگریٹ دینے کی اطلاعات ہیں، ان بچوں اور نوعمروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی کرنے والوں میں سے نوے فیصد اٹھارہ سال سے کم عمر افراد ہیں اور یہ مہلک عمل دانستہ طور پر کرایا جارہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے جمعے کے روز ایک کلاس روم ٹول کٹ کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد 13 تا 17 سال کے نوجوانوں کو بتانا ہے کہ تمباکو کی صنعت مہلک مصنوعات استعمال کرنے کے لیے جوڑ توڑ کی کوشش کرتی ہے۔

عالمی ادارہ برائے صحت کے تمباکو یونٹ کے کوآرڈینیٹر ونایاک پرساد نے کہا کہ یہ صنعت مارکیٹنگ پر فی گھنٹہ 10 ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے، وہ متبادل صارفین کی تلاش کے لیے یہ کام کر رہے ہیں جبکہ ہر سال آٹھ لاکھ قبل از وقت اموات تمباکو نوشی سے ہوتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ 39 ممالک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب 13 سے 15 سال کی عمر کے نو فیصد بچے ای سگریٹ استعمال کر رہے ہیں جبکہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں اس کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے، جہاں تک یہ دعوے ہیں کہ ای سگریٹ محفوظ ہیں تو انھیں خبردار کرتے ہیں کہ تمباکو نوشی کے تمام طریقے سخت مضر صحت ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کے دوران سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی تھی جس پر سگریٹ سازکمپنیاں اپنا لوگو ماسک پر ڈال رہی ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here