اسلام آباد: تمباکو کے کسانوں اور صنعتی ملازمین نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت سے مقامی انڈسٹری پر بھاری ٹیکسز عائد نہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اس اقدام سے بین الاقوامی کمپنیاں کی موناپلی پیدا ہو گی اور مقامی انڈسٹری سے ہزاروں ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔
کسانوں اور صنعتی ملازمین کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ “اگر حکومت نے بین الاقوامی کمپنیوں کے کہنے پر مقامی انڈسٹری پر نئے ٹیکسز لاگو کیے تو لاکھوں کسان اور کم ازکم 20 ہزار صنعتی ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے”۔
کسانوں اور صنعتی ملازمین کے نمائندگان نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں حکومت کے نئے ٹیکسز لاگو کرنے کے اقدام سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ “ہم 10 روپے فی کلو تمباکو کے علاوہ کسی قسم کا کوئی ٹیکس قبول نہیں کریں گے”۔
گزشتہ سال حکومت نے فی کلو گرام تمباکو پر 300 روپے کے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی تھی جس پر کسانوں اور صنعتی ملازمین کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔ مذکورہ تجاویز کے تحت کسانوں کو 130 روپے فی کلو کے حساب سے یہ فصل تمباکو کمپنیوں کو فروخت کرنا تھیں لیکن انہیں فی کلو گرام کے عوض 300 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔
حکومتی عہدیداروں سے کئی اجلاسوں کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے فیصلے کو واپس لینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ “بین الاقوامی کمپنیاں پھر سے حکومت کو کسانوں پر بھاری ٹیکسز عائد کرنے کی کوششیں کررہی ہیں جس سے ڈیلرز ختم اور چھوٹے صنعتی یونٹس تباہ ہو جائیں گے”۔
کسانوں کے مطابق صوبے میں 22 سے زائد چھوٹی کمپنیاں ہیں جو کسانوں کو دیگر بڑی کمپنیوں کے مقابلے میں اچھی قیمتیں ادا کرتی ہیں اور پھر ان کے پرچیسنگ سینٹرز گاؤں میں ہیں جہاں وہ آسانی سے اپنی مصنوعات فروخت کر سکتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں 98 فیصد تمباکو کی فصل کی پیداوار بونیر، مانسہرا مردان میں شیرگڑھ، چارسدہ اور صوابی کے اضلاع میں ہو رہی تھی۔ صوابی تمباکو کی فصل کا سب سے بڑا پیداکنندہ سمجھا جاتا ہے جہاں تمباکو نہ صرف کیش فیصل ہے بلکہ لاکھوں گھروں کے روزگار کا واحد ذریعہ بھی ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی کمپنیاں مقامی انڈسٹری پر موناپلی قائم کرنا چاہتی ہیں جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اگر وہ ٹیکس عائد کرنا چاہتی ہے تو کسانوں پر لگانے کی بجائے سگریٹ کے پیکس پر لگائے۔