دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کاریں مہنگی کیوں ہیں؟

نئی کاروں پر ہوشربا ٹیکسز، استعمال شدہ گاڑیاں منگوانے پر پابندی، کیا اتنے بھاری ٹیکسز جائز ہیں؟ اور کار خریدنے کے خواہشمندوں کے پاس مزید کیا آپشن موجود ہیں؟

5037

2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومت میں آنے کے بعد عوام کئی طرح کے اندیشوں سے دوچار ہوئے جن میں سے ایک اندیشہ نئی گاڑیوں سے متعلق بھی تھا، سوشل میڈیا گروپس میں ایسے پیغامات گردش کرنے لگے کہ اب اگر گاڑی نہیں خریدی تو مستقبل میں گاڑیاں اس قدر مہنگی ہو جائیں گی کہ خریدنے کی سکت نہیں رہے گی۔

ایک وقت میں یہ خوف اور اندیشے بالکل بجا تھے، گاڑیوں پر نت نئے ٹیکس لاگو ہو گئے، استعمال شدہ جاپانی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی، ہونڈا اطلس اور ٹویوٹا انڈس کو پیداوار روکنا پڑ گئی، قیمتیں بڑھنے لگیں اور گاڑیوں کی فروخت کم ہونے لگی۔

کاریں مہنگی ہو گئیں، لیکن سچ تو یہ ہے دنیا میں ہر جگہ ہی کار مہنگی چیز سمجھی جاتی ہے تاہم پاکستان میں کاریں ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کے مقابلے میں ہمیشہ سے مہنگی رہی ہیں، پاکستان میں کار سازی محدود ہے اس لیے کاریں درآمد کرنا پڑتی ہیں۔

کار صرف سفر کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ سماج میں آپ کی حیثیت، دولت اور طاقت کا حوالہ اور گفتگو کا بہترین موضوع بھی ہے۔

لیکن پاکستان کاریں اتنی مہنگی کیوں ہیں؟ اور اب جبکہ بے شمار ٹیکسز بھی عائد ہو چکے ہیں، استعمال شدہ جاپانی کاریں بھی نہیں آئیں گی، تو ایسے میں کیا آپ نئی کار خریدنے کی امید کرسکتے ہیں؟

کہاں سے شروع کریں۔۔۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ تحریر ٹیکسوں کے بارے میں ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ کیسے ہوا، تو آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں، اعدادوشمار آپ کے سامنے ہیں، ٹیکسز واقعی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے  کاروں کی قیمتیں دُگنی ہو گئی ہیں۔

30 جون 2020ء کو اختتام پذیر ہونے والی ششماہی میں ابھی تک پاکستان میں کُل تیار شدہ 60 ہزار 862 گاڑیوں میں سے 59 ہزار 97 گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں،  گزشتہ سال کی اسی مدت کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو مالی سال 2019ء کی ایک ششماہی کے دوران ایک لاکھ 13 ہزار 494 گاڑیوں تیار کی گئیں جن میں سے ایک لاکھ 4 ہزار 38 گاڑیاں فروخت ہو سکیں۔

سہیل بشیر رانا، چیئرمین پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن

ان اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا اتنے بھاری ٹیکسز جائز ہیں؟ اور کار خریدنے کے خواہشمندوں کے پاس مزید کیا آپشن موجود ہیں؟

پاکستان میں بھارت یا دیگر ممالک کی طرح  گاڑیاں تیار نہیں کی جاتیں، اگرچہ گاڑیاں یہاں اسمبل ضرور ہوتی ہیں لیکن ان کے زیادہ تر پرزہ جات درآمد کیے جاتے ہیں، اور حکومت کے درآمدات سے متعلق موقف کے باعث موجودہ صورتحال درپیش ہے۔

ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کار سازی کا عمل طویل ہوتا ہے، گویا کہ فورڈ انقلاب کی وجہ سے بھی بالکل بدلاؤ نہیں آیا، ڈیلر تک پہنچنے میں ایک کار کئی ہاتھوں سے گزرتی ہے اور اسی حساب سے اس کی قیمت میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔

پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے چئیرمین سہیل بشیر رانا کہتے ہیں، “پاکستان میں کاروں پر بہت سے ٹیکسز عائد ہیں۔” یہ حیران کن امر نہیں ہے کہ بڑی کاروباری ایسوسی ایشن کے سربراہ بہت زیادہ ٹیکسوں کا رونا رو رہے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی نکتہ ہو سکتا ہے۔

سہیل بشیر رانا کے مطابق خام مال پر پہلے بھی امپورٹ ڈیوٹیز اور ٹیکسزعائد تھے لیکن گزشتہ سال سے کچھ زیادہ ہی ٹیکس لگ چکے ہیں، پھر بھاری وِد ہولڈنگ ٹیکس اور امپورٹ پر ایویلیوایشن ہوتی ہے جس سے لاگت بہت اوپر چلی جاتی ہے۔

چئیرمین پاما نے مزید کہا کہ مقامی انڈسٹری کی بات کریں تو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے خام مال اور پرزہ جات مہنگے ملتے ہیں، وفاقی ایکسائز ڈیوٹی تیار شدہ مصنوعات پر لاگو ہوتی ہیں، اس کے بعد سیلز ٹیکس لگتا ہے اور یوں گاڑی کی مجموعی قیمت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔

سہیل رانا بالکل سادہ سی بات کر رہے ہیں کہ جب ہر قسم کے ٹیکسز شامل کیے جائیں تو مجموعی حساب بڑا ڈراؤنا ہوتا ہے اور ڈیلر کو زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ انکم ٹیکس دیتے وقت کافی کچھ جیب سے جاتا ہے، گاڑی کی قیمت حد سے بڑھنے کی وجہ سے لوگ گاڑی خریدتے ہی نہیں اور جو چند ڈیلر کاریں بیچ پاتے ہیں ان کا منافع بالکل قلیل سا رہ جاتا ہے۔

گاڑیاں مہنگی ہونے کی ایک دوسری وجہ پریمیم ہیں، کاروں کی مارکیٹ سے منسلک ہر کوئی جانتا ہوگا کہ پریمیم کیا ہوتا ہے، ایسا صرف فلموں میں ہوتا ہے کہ سیلزمین ہر قسم کی کار کی معلومات دے رہا ہوتا یہے لیکن کار ڈیلرشپ کے حقیقی دھندے میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ڈیلرز صرف ایک برانڈ کی کاریں ہی فروخت کرتے ہیں۔

اور اگر آپ گاڑی خریدنے کا فیصلہ کر ہی لیں تو یہ نہیں ہوتا کہ کوالٹی چیک کرنے کیلئے فوری آپ کو چابی تھما دی جائے اور آپ لانگ ڈرائیو پہ نکل جائیں بلکہ کچھ ماہ تک صرف کاغذات کے سہارے صبر آزما انتظار کرنا پڑتا ہے لہٰذا اگر آپ کو گاڑی جلدی چاہیے تو پریمیم کی صورت میں زیادہ رقم ادا کرنا پڑے گی۔

ایک دوسرے کار ایجنٹ مرتضیٰ قاضی نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ “ڈیلرز پریمیم کی رقم شامل کر کے قیمت میں اضافہ کر دیتے ہیں، کسٹمر کو کہا جاتا ہے کہ اگر وہ بکنگ کی مدت کا انتظار کرنے کے بجائے فوراََ گاڑی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اصل قیمت کی صورت میں زیادہ رقم ادا کرے، اس طرح مجموعی طور پر کسٹمر کو گاڑی مہنگی پڑتی ہے۔”

کیا سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ 

اس گھمبیر اور ناامیدی کی صورتحال کے پیش نظر کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ استعمال شدہ کار خریدنے کا آپشن کسی ناخوشگوار صورتحال کو بہادری سے قبول کرنے کے مترادف ہے، لیکن مرتضیٰ قاضی کے خیال میں یہ کوئی بہتر آئیڈیا نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں کے حوالے سے کوئی معیار طے نہیں اور اس سے بھی بڑا خطرہ خراب ڈیل کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

مرتضیٰ کہتے ہیں کہ ڈیلرز خود بھی ذمہ دار ہیں جو خاص طور پر اُن گاڑیوں کی قیمت بڑھا دیتے ہیں جن سے انہیں زیادہ منافع ملنے کی امید ہوتی ہے، نتیجتاََ ایک مخصوص ماڈل کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ بن جاتی ہے اور وہ پھر مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے۔

“ڈیلرز کا اپنا بھی کمیشن ہوتا ہے، اب ویب سائٹس کے ذریعے کاروں کی فروخت کا ایک نیا رجحان چل نکلا ہے جس میں کسٹمر اور سیلر ہی سب کچھ طے کرتے ہیں، اس سے بھی قیمت پر فرق پڑتا ہے کیونکہ ہر کسی کو اس کام کا تجربہ نہیں ہوتا۔”

انہوں نے کہا کہ لوگ ایسی ویب سائٹس پر استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتیں اپنی مرضی کی لگاتے ہیں جس سے خریدار نئی کار یا پرانی کار خریدنے کے انتخاب سے متعلق پریشان ہوجاتا ہے تاہم ٹیکسی سروس اوبر اور کریم کے متعارف ہونے سے مارکیٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، لوگ استعمال شدہ گاڑیاں خرید کر اوبر اور کریم پر رجسٹر کروا رہے ہیں۔

لیکن سہیل بشیر رانا کہتے ہیں کہ اگر نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر اسی گاڑی کے استعمال شدہ ماڈل کی قیمت بھی زیادہ ہو گی، اگر ایک ہونڈا کار کی قیمت 40 لاکھ تک ہے تو وہی گاڑی استعمال شدہ حالت میں بھی مہنگی ہی ملے گی۔

کیا مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟ 

پاکستان میں گاڑیاں سستی کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ پوچھنا آسان لیکن اس کا جواب مشکل ہے، اگر مقامی سطح پر میٹل شیٹس اور پرزہ جات بننا شروع ہو جائیں تو قیمتیں تیزی سے نیچے آئیں گی لیکن پرزہ جات اور میٹل شیٹس بنائے گا کون؟

آٹو انڈسٹری کی موجودہ حالت زار سے مایوس ایک ڈیلر تجمل اشفاق کہتے ہیں کہ حکومت کو ایسی کوششوں کی ناصرف مدد کرنی چاہیے بلکہ سبسڈی بھی دینی چاہیے۔

“اگر ہم چین، بھارت یا کسی دوسرے ملک کی بات کریں تو وہاں اسمبل ہونے والی گاڑیوں پر اسی ملک کا نام لکھا ہوتا ہے  جبکہ کسی چیز پر پاکستان کا نام لکھا ہو تو اسے ہم خود شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں، ہمیں ایک فروغ پذیر انڈسٹری کی ضرورت ہے جس پر صارفین اعتماد اور فخر کریں۔”

بدقسمتی سے ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں، تجمل اشفاق کا اشارہ مقامی طور پر تیار کی گئی یونائیٹڈ براوو کار کی جانب تھا جو نسبتاََ سستی کار ہے تاہم مارکیٹ میں اسے اچھا رسپانس اس لیے نہیں ملا کیونکہ یہ پاکستان میں تیار ہوئی ہے اس لیے لوگ معیار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

“یونائیٹڈ براوو اس لیے مقبول نہیں ہوسکی کیونکہ یہ مقامی طور پر تیار کردہ ہے اور سستی ہے، عام طور پر پاکستان میں خریدار انہی دو چیزوں کی بنا پر پروڈکٹ سے دور رہتے ہیں چاہے وہ اعلیٰ معیار کی ہی کیوں نہ ہو۔”

چئیرمین پاما سہیل رانا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسمبل کی گئی گاڑی کی قیمت میں واضح فرق ہوتا ہے، انہوں نے ٹریکٹرز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 90 فیصد ٹریکٹرز کے پرزہ جات مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کی قیمت مستحکم ہوتی ہے حتیٰ کہ قیمت میں اتار چڑھاؤ بھی ہو تو وہ قابلِ خرید ہوتے ہیں، لیکن گاڑیوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے کیونکہ 40 سے 50 فیصد پرزہ جات ہی پاکستان میں تیار کیے جاتے ہیں، باقی درآمد کرنا پڑتے ہیں۔

انہوں نے کہا “اگر کاریں پاکستان میں بھی بنائی جائیں تب بھی خام مال درآمد کیا جاتا ہے، پاکستان میں مقامی سطح پر کار کے لیے میٹل شیٹس دستیاب نہیں ہیں اور یہ دیگر پرزہ جات کے ہمراہ درآمد کی جاتی ہیں۔ سٹیل ملز کی مصنوعات قابلِ قبول کوالٹی کے مطابق نہیں۔”

پاکستان میں گاڑیوں کے باڈی پارٹس ہونڈا، سوزوکی اور ٹویوٹا کی جانب سے تیار کئے جا رہے ہیں، سِیٹیں، ٹائر، بمپبر، رم، ونڈسکرین اور شیشے بھی پاکستان میں تیار کیے جارہے ہیں۔ انجن اور اس سے ملحقہ پارٹس، تاہم یہاں نہیں بنائے جارہے۔ اس حوالے سے صرف سوزوکی کمپنی کچھ حد تک بہتر کام کر رہی ہے۔

جاپانی گاڑیوں پر اعتراضات 

کار ڈیلرز میں یہ کہاوت عام ہے کہ اگر آپ ایک بار نئی جاپانی کار خرید لیتے ہیں تو کبھی مقامی تیارکردہ گاڑی نہیں خریدیں گے، ایک زمانے میں پاکستان میں جاپانی گاڑیوں کی بہتات ہو گئی تھی، ہائبرڈ، سستی اور زیادہ مائلیج دینے والی بڑی گاڑیاں پاکستانی مارکیٹ میں نظر آنے لگیں اور پھر جب حکومت نے درآمدات بند کیں تو یہ سلسلہ رک گیا۔

ایک صارف کا کہنا ہے کہ “اگر آپ سوزوکی کی پاکستان میں تیار کردہ آلٹو کا موازنہ اسی ورژن کی جاپانی کار کے ساتھ کریں تو جاپانی کار کئی گنا معیاری ہے، اس مں ائیر بیگز سمیت دیگر اسیسریز زیادہ ہیں اور مائلیج بھی آلٹو کی نسبت بہتر ہے۔”

تاہم سہیل بشیر کی رائے میں اہم چیز کوالٹی اور پرزہ جات کی فٹنگز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “درآمد شدہ گاڑیوں میں ائیربیگز، پُش سٹارٹ اگنیشن، پاور ونڈوز، سینٹرل لاکنگ سسٹم، انٹرمیٹنٹ وائپرز اور دیگر بہت سی اسیسریز موجود ہوتی ہیں لیکن انہی خصوصیات کی وجہ سے گاڑی کی قیمت بھی زیادہ ہو جاتی ہے لیکن یہی اسیسریز مقامی تیار کردہ گاڑیوں میں بھی شامل کی جا سکتی ہیں، کچھ مخصوص کسٹمرز ہی ایسی اسیسریز پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ورنہ زیادہ تر لوگ تو سستی کار چاہتے ہیں۔”

چوں کہ جاپانی کاروں کی بہتات سے ڈیلرز کو کاروباری خطرہ محسوس ہوا، اسی وجہ سے پاما جاپانی گاڑیوں کی درآمد کی مخالف ہے، پاما کے چیئرمین بھی درآمدی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔

وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر ہنڈائی اور کِیا پاکستان میں پلانٹس لگا رہی ہیں جسے تحفظ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ دیگر کمپنیوں کو بھی سرمایہ کاری پر راغب کیا جاسکے، اس کے علاوہ درآمدی کاریں زیادہ تر سیکنڈ ہینڈ اور فرسودہ حالت میں ہوتی ہیں، تاہم اب ڈالر مہنگا ہونے کے باعث ان کی درآمد کم ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ درآمدکنندگان استعمال شدہ گاڑیوں کے لیے سبسڈی کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں، پاکستان میں آٹو کمپنیوں نے کافی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، ہمیں سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی بجائے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

پاما کی تجویز کیا ہے؟ 

پاما اور اسکے چئیرمین چاہتے ہیں کہ ٹیکسوں میں کمی ہو، یہ مطالبہ غلط بھی نہیں، لیکن چئیرمین پاما سہیل رانا کا کہنا ہے کہ “حکومت کہتی ہے کہ اگر آپ گاڑی خریدنے کی مالی سکت رکھتے ہیں تو پھر  ٹیکس بھی دے سکتے ہیں، ہونڈا کی 22 لاکھ میں ملنے والی کار اب 40 لاکھ روپے میں فروخت ہوتی ہے، قیمت میں یہ اضافہ ٹیکسوں کی وجہ سے ہے، زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کسٹمرز کی تعداد مسلسل گھٹتی جا رہی ہے اور اگر حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ ٹیکسوں سے آمدن میں اضافہ ہوگا، تو انہیں ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آٹوانڈسٹری کی مجموعی آمدنی بھی کم ہو جائے گی۔”

تاہم یونائیٹڈ موٹرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) زوار طاہر مستقبل میں اپنی کمپنی کے لیے کچھ پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دوسری کمپنیوں کی کاریں مہنگی ہونے سے یونائیٹڈ موٹرز کو سستی کاریں فروخت کرنے کا موقع ملے گا۔”

پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 660 سی سی سوزوکی آلٹو کی قیمت اس کے معیار کے مطابق چار سے ساڑے چار لاکھ تک ہونی چاہیے تھی، یونائیٹڈ موٹرز کا ٹارگٹ متوسط طبقہ ہے جو سستی اور معیاری گاڑی چاہتا ہے۔

زوار طاہر نے کہا کہ ان کی کمپنی نے قیمتیں کم رکھی ہیں تاہم کسٹمرز کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ٹیکس (براہِ راست یا بالواسطہ دونوں) کار کی قیمت کا 40 فیصد سے زائد بنتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک گاڑی کس حد تک بہتر ثابت ہو گی؟ آج کل پاکستانی مارکیٹ میں موجود خلا کو پر کرنے کیلئے چینی کمپنیاں اپنی جگہ بنا رہی ہیں تاہم چئیرمین پاما کے مطابق جاپانی اور کورین آٹو کمپنیوں کی نسبت چینی کمپنیوں پر بھی لوگ کم ہی  اعتماد کرتے ہیں۔

سہیل بشیر کہتے ہیں کہ آٹو انڈسٹری کے حوالے سے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے چین ابھی بھی جاپان سے پیچھے ہے، پاکستان میں چینی کمپنیاں جوائنٹ وینچرز کی صورت میں پلانٹس لگا رہی ہیں  لیکن کوالٹی پر پھر بھی سوالات اٹھتے ہیں،  پہلے سے قائم شدہ برانڈ کے معیار کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، کم مشہور برانڈز ہونڈا اور کِیا جیسی کمپنیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور یقینی طور پر بڑے اور مشہور برانڈز کو ترجیح دی جاتی ہے۔

دوسری جانب یونائیٹڈ موٹرز، جو ابھی تک پاما کا حصہ نہیں، واحد کمپنی ہے جو مطمئن دکھائی دیتی ہے اور اپنی مصنوعات کو صارفین کے لیے پیش کر رہی ہے۔

اسکے سی ای او کے مطابق یونائیٹڈ موٹرز مکمل طور پر پاکستانی کمپنی ہے جبکہ باقی کمپنیاں جوائنٹ وینچرز کر کے کام کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں آمدن بھی تقسیم ہو جاتی ہے اور زرمبادلہ ملک سے باہر جاتا ہے۔

“یونائیٹڈ موٹرز پہلی مقامی کار ساز کمپنی ہے جس کی تمام آمدن بھی پاکستان کے اندر رہتی ہے کیونکہ اس کا کسی بیرونی کمپنی کے ساتھ اشتراک نہیں، کسی بھی کار ساز کمپنی کو وقت لگتا ہے کیونکہ اس کی پہلی پانچ چھ سو گاڑیوں میں مسائل بھی سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ہم ایک ریکارڈ وقت میں اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ “

سی ای او یونائیٹڈ موٹرز کے مطابق ان کی کمپنی پہلے سال میں تقریباََ 2500 گاڑیاں فروخت کر چکی ہے، یہ اہم سنگِ میل ہے۔ گاڑیوں کے بارے میں زیادہ شکایات بھی سامنے نہیں آ رہی ہیں، لیکن صارفین او حکومت کا اعتماد حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here