اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی، عید کے بعد کیا ایکشن ہوگا شہزاد اکبر کی ذمہ داری لگا دی گئی ہے۔
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی اس وقت چینی کی قلت نہ تھی، مارکیٹ میں چینی موجود تھی پھر چینی کی قیمت کیوں بڑھنا شروع ہوئی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ چینی معاملہ پر مجھ پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہ تھا، وزیراعظم نے مجھے کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کیا، چینی برآمد کرنے کا فیصلہ ای سی سی میں ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
چینی بحران رپورٹ میں ملز مالکان کی جانب سے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا انکشاف
کیا حکومت واقعی کورونا ریلیف فنڈ کا پیسہ گردشی قرضوں کی ادائیگی میں استعمال کر رہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں چینی برآمد ہونی چاہیے تھی، جب 2018ء میں چینی برآمد کرنے کا فیصلہ ہوا اس وقت 20 لاکھ ٹن سرپلس چینی تھی اس لیے ملک میں چینی کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ملز والے کہہ رہے تھے کہ ہمارا مطالبہ پورا نہ کیا گیا تو کرشنگ نہیں کریں گے حالانکہ قانون میں لکھا ہے کہ 30 نومبر تک کرشنگ شروع کی جائے۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے شوگر انکرائری کمیشن کی فارنزک رپورٹ عام کر دی ہے جس میں ملز مالکان کی جانب سے بڑے پیمانے پر فراڈ اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
اس رپورٹ میں نو بڑے گروپس کی ملز کے آڈٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔ وفاقی کابینہ نے ذمہ داران کے خلاف کیسز نیب اور ایف آئی اے کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ کابینہ نے مفادات کے ٹکراؤ کا قانون جلد نافذ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔