بیجنگ: بھارت کی چین کو صنعتی شعبے میں شکست دے کر دنیا کی فیکٹری بننے کی خواہش اور کچھ نہیں صرف قومی پرستی کا پیدا کیا ہوا غرور ہے ۔
چین سے شائع ہونے والے اخبار گلوبل ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن میں جکڑی معیشت نے بظاہر بھارت کی چین کا متبادل بننے کی خواہش کا کچھ نہیں بگاڑا ہے۔
یہی وجہ یے کہ بھارت کی شمالی ریاست اترپردیش نے کمپنیوں کو چین سے بھارت منتقل کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے تاہم کورونا وائرس کے باوجود چین میں اتنا دم خم ہے کہ وہ بھارت کی اس خواہش کو پورا ہونے سے روک سکے۔
یہ بھی پڑھیے:
بھارت نے ملائیشین پام آئل کی خریداری دوبارہ شروع کر دی
بھارت میں لاک ڈاؤن : مشرقی وسطی کے لیے پاکستانی چاول کی برآمد میں اضافہ ہوگیا
کورونا کے علاج کیلئے ویکسین نہیں، تیار کردہ دوا ہی کافی ہو گی، چینی محققین
بعض سخت رائے رکھنے والے ماہرین بھارت کی اس خواہش کی وجہ سوائے غرور کے اور کچھ نہیں بتاتے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ بھارت کا خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد اور غرور اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اسے محسوس ہونے لگا ہے کہ بارڈر مسائل پر چین کے ساتھ فوجی ٹکر لی جا سکتی ہے جو کہ صریحاً گمراہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جانب سے وادی گلوان کے علاقے میں چھیڑ چھاڑ اور یکطرفہ تبدیلیوں کی کوشش کے جواب میں چینی فوج نے بارڈر پر نگرانی اور کنٹرول سخت کردیا ہے۔
چینی اخبار کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا کی جانب سے بھارت کے چین کیساتھ غلط موازنے نے ہندوستان کو وہم میں مبتلا کر دیا ہے اور اسے حقیقت کا یا توعلم نہیں یا اس کی قیادت جان بوجھ کرخوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔
آرٹیکل میں مزید کہا گیا ہے کہ کم از کم یہ وہ وقت نہیں کہ بھارت چین کا متبادل بن جائے اور نہ ہی امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ بھارت کے لیے ایسا موقع ہے کہ وہ کمپنیوں کو چین سے نکال کر اپنی طرف آنے پر راغب کرسکے کیونکہ نہ تو اس کے پاس انفراسٹرکچر ہے اور نہ ہی ہنرمند افرادی قوت۔
بھارت چین کی جگہ دنیا کی فیکٹری بننا چاہتا ہے اور اس کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس مقصد کو پورا کرنے کے’میک اِن انڈیا‘ پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے لیکن دنیا اس سے کچھ زیادہ متاثر نظر نہیں آتی۔
ماہرین کے مطابق بھارت کی ناکامی اپنے نظام میں اصلاحات کے بجائے کھوکھلے نعرے لگانے کی وجہ سے ہے۔
گلوبل ٹائمز کے مطابق بھارت کے صنعتی ترقی کے خواب اور چین کو پیچھے چھورنے کے خبط کی وجہ دراصل ملک میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی ہے۔
امریکہ کی جانب سے پشت پناہی اور تعریف کے باعث بھی بھارت میں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ چین کو نیچا دکھا سکتے ہیں مگر حقیقیت یہ ہے کہ اس سوچ کیساتھ بھارت اکثر اپنے مفادات کی قیمت پر امریکہ کے مفادات کے تحفظ کی پالیسیاں بنانے کی راہ پر چل پڑتا ہے۔
لیکن شائد خود امریکہ کی بھارت کو تکلیف پہنچانے والی تجارتی پالیسیاں اسکی آنکھیں کھول دیں۔
چینی اخبار میں مزید لکھا ہے کہ جہاں اس وقت ایشیا پیسیفک ریجن کی معیشتیں کورونا کے اثرات سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث ڈریگن اور ایشیا کے ہاتھی کے درمیان کشمکش بھی بڑھ رہی ہے لیکن دونوں ابھرتی ہوئی مارکیٹیں ایک ساتھ چلنے کا طریقہ ڈھونڈ ہی لیں گی۔
آخر میں اخباری آرٹیکل میں بھارت کو نصیحت کی گئی کہ اسے حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنانی چاہیں نا کہ قوم پرستی کے پیدا کردہ غرور کی بنیاد پر اور یہی چیز اس کی معیشت کی ضرورت ہے۔