پیرس: کورونا وائرس کی وباء کے باعث 2020ء میں فوسل ایندھن سے دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سات فیصد تک کمی واقع ہوگی جو کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد سب سے تیز کمی ہے۔
محققین کی نیچر کلائیمیٹ چینج نامی میگزین میں شائع ہونے والی وبائی امراض کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پراثرات کے بارے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق پہلی مرتبہ اپریل کے اوائل میں، کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے باعث پہلی مرتبہ اپریل کے اوائل میں، کاربن آلودگی میں کمی ہوئی جو کہ گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 17 فیصد کم ہے-
2020ء کے پہلے چار مہینوں چار ممالک یا بلاک، چین، امریکہ، یورپی یونین اور بھارت کا اس کمی میں دو تہائی حصہ تھا جو ایک ارب ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر ہے۔
گذشتہ سال صنعت اور توانائی سے مجموعی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 37 ارب ٹن ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ایسٹ انگلیہ یونیورسٹی میں موسمیاتی تبدیلی ریسرچ کے پروفیسر، ٹینڈال سینٹر برائے موسمیاتی تبدیلی ریسرچ کے ایک پروفیسر مصنف کورن لی کوئرے نے کہا ہے کہ آبادی کو گھروں میں محدود کرنے سے توانائی کے استعمال اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں زبردست تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
تاہم یہ انتہائی کمی واقع ہونے کا امکان عارضی ہے اور اس سے معاشی، نقل و حمل یا توانائی کے نظام میں ساختی تبدیلیوں کی عکاسی نہیں ہوتی۔
لی کوئر اور اس کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگر عالمی معیشت جون کے وسط تک وبائی صورتحال سے دوچار رہے تو غیر متوقع منظرنامہ کے تحت 2020 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں صرف چار فیصد کمی متوقع ہے۔ لیکن اگر سال بھر لاک ڈاون کی پابندیاں برقرار رہیں تو یہ کمی سات فیصد کے لگ بھگ ہوگی۔