2020ء کے دوران بین الاقوامی معیشت تین فیصد تک سکڑ جائے گی، آئی ایم ایف کا نیا تخمینہ

1930ء کے گریٹ ڈپریشن کے بعد دنیا سب سے بڑے عالمی بحران کی منتظر، یہ بحران کب تک چلے گا اور اس سے کیسے نکلا جائے گا؟ اس حوالہ پیش گوئی قبل از وقت ہو گی: برطانوی نشریاتی ادارہ

908

اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ سال 2020ء کے دوران بین الاقوامی معیشت تین فیصد تک سکڑ جائے گی جبکہ قبل ازیں عالمی مالیاتی ادارے نے پیش گوئی کی تھی کہ دنیا کی معیشت تین فیصد تک بڑھے گی جو حالیہ اندازہ کے بالکل برعکس ہے۔

کورونا وائرس (کووڈ۔19) کی عالمی وباء کے باعث بین الاقوامی برادری کو وی، یو، ڈبلیو یا ایل شکل کی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے عالمی معیشت پر اثرات بھی مختلف ہو سکتے ہیں، دنیا بھر کے ممالک اپنی معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں لاک ڈاون میں نرمی نظر آ رہی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق 1930ء کی دہائی کے گریٹ ڈپریشن کے بعد دنیا سب سے بڑے عالمی بحران کی منتظر ہے مگر یہ بحران کب تک چلے گا اور اس سے کیسے نکلا جائے گا؟ اس حوالہ پیش گوئی قبل از وقت ہو گی۔

آئی ایم ایف کے تخمینہ کے مطابق دنیا 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں کورونا وائرس کے بدترین معاشی اثرات سے گزر رہی ہے اور بہت سے ممالک اقتصادی کساد بازاری کو دو مسلسل سہ ماہیوں میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں کمی قرار دیتے ہیں۔

امریکہ کی نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ کے مطابق کساد بازاری یعنی معاشی سرگرمیوں میں واضح کمی ہے جو کئی ماہ تک جاری رہنے اور جی ڈی پی میں نظر آنے کے ساتھ ساتھ حقیقی آمدنی، بیروزگاری، صنعتی پیداوار اور پرچون کے شعبہ میں بھی واضح ہوتی ہے۔

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ دنیا 2020ء کی دوسری سہ ماہی کے دوران کورونا وائرس کے بدترین معاشی اثرات سے گزر رہی ہے تاہم امید ہے کہ رواں سال کی دوسری ششماہی میں حالات بہتر ہوں گے اور کاروبار آہستہ آہستہ کھلنے لگیں گے اور اگر لاک ڈاؤن جیسے اقدامات جاری رہے تو کاروبار ختم اور لوگ بیروزگار ہونے لگیں گے۔

یہ کساد بازاری مزید سنگین اور طویل ہو سکتی ہے اور اس سے نکلنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا۔ دنیا بھر کو وی، یو، ڈبلیو یا ایل شکل کی کساد بازاری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ انگریزی کے ان حروف کے ذریعے ماہرینِ معاشیات کساد بازاری کی مختلف اقسام کو بیان کرتے ہیں جو جی ڈی پی کے گراف کی شکل بیان کرتے ہیں۔

ماہرین معاشیات نے کہا ہے کہ وی شکل کی کساد بازاری سب سے اچھی صورتحال ہے۔ اگر ہم اس وباء کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہم وی شکل کی کساد بازاری دیکھیں گے کیونکہ لاک ڈاؤن ختم ہونا شروع ہو جائیں گے اور قومی پیداوار بڑھنے لگے گی۔

انہوں نے کہا کہ وی شکل کی کساد بازاری کو ہم بہترین قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں معیشت میں سست روی آتی ہے جو جلدی سے اپنی نچلی ترین سطح تک پہنچتی ہے اور پھر جلد ہی معیشت میں بہتری آنے لگتی ہے۔

کیتھولک یونیورسٹی آف چلی کے پروفیسر ہوزے ساڈا نے کہا ہے کہ اس صورتحال میں ہماری معیشت پہلے جیسی سطح کے قریب لوٹ آتی ہے اور کساد بازاری قدرے قلیل مدت کی ہوتی جو چند سہ ماہیوں تک ہو سکتی ہے۔

نیویارک کے سٹینڈرڈ اینڈ پوئر گلوبل ریٹنگز کے چیف اکانومسٹ پال گروئنوالڈ نے کہا ہے کہ اگر سماجی دوری کے اقدامات جلد ختم کر دیئے جاتے ہیں یا جلد ہی اس وبا کی ویکسین یا علاج بن جاتا ہے تو ہم جلد اپنے راستے پر واپس آ جائیں گے۔

ایس اینڈ پی کی پیش گوئی کے مطابق 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں معاشی سست روی 9 فیصد تک ہوگی اور کساد بازاری سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ایس اینڈ پی کے مطابق 2020ء میں مجموعی طور پر 2.4 فیصد معاشی کمی ہو سکتی ہے اور اس کے بعد 2021ء میں عالمی معیشت میں 5.9 فیصد اضافہ ہوگا۔

موڈیز انویسٹرز سروسز کی اسوسی ایٹ مینجنگ ڈائریکٹر الینا دوگر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے نشانات 2021ء میں بھی معیشت پر نظر آئیں گے تاہم جب لاک ڈاؤن جیسے اقدامات ختم ہوں گے اور اقتصادی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی تو رواں سال کی دوسری ششماہی کے دوران حالات قدرے بہتر ہوں گے۔

عالمی معاشی ماہرین نے ڈبلیو شکل کی کساد بازاری کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتیں لاک ڈاؤن جیسے اقدامات ختم اور معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرسکتی ہیں مگر کورونا وائرس کی دوسری لہر کی صورت میں یہ لاک ڈاؤن کے اقدامات دوبارہ کرنے سے معیشت کو ایک اور دھچکا لگ سکتا ہے اس صورتحال میں معیشت میں ایک مرتبہ پھر گراوٹ آ سکتی ہے جیسے ڈبلیو شکل کہا جاتا ہے۔

پال گروئنوالڈ نے کہا ہے کہ اگر ہم سماجی دوری جیسے اقدامات لگاتے اٹھاتے رہے تو معیشت کے واپس اپنی سطح تک پہنچنے میں قدرے زیادہ وقت لگے گا۔ اسی طرح ماہرین نے ایل شکل کی کساد بازاری کو نئی صورتحال قرار دیا ہے جبکہ ایل شکل کی کساد بازاری میں معیشت تیزی سے گرنے کے بعد کچھ سنبھلتی ہے مگر اپنی پرانی سطح پر واپس نہیں جاتی اور ایک نچلی سطح پر لوٹ جاتی ہے۔

پروفیسر ہوزے ساڈا نے کہا ہے کہ ایسی صورتحال میں کساد بازاری نہیں بلکہ عالمی پیداوار میں مستقل تبدیلی ہو گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here