‘ہائوس آف حبیب’ کو اوج کمال تک پہنچانے والے علی سلیمان حبیب کون تھے؟

3942

ہائوس آف حبیب کا شمار پاکستان کے امیر کبیر گھرانوں میں ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس خاندان کے قائم کردہ انڈس موٹرز سمیت دیگر بڑے ادارے مجموعی قومی پیداوار میں اچھا خاصا حصہ (انتظامیہ کے مطابق جی ڈی پی کا ایک فیصد) ڈال رہے ہیں۔

2005ء میں علی سلیمان حبیب نے اپنے نئے سی ای او پرویزغیاث کواسی حقیقت سے آشنا کرانا ضروری سمجھا، علی سلیمان  1993ء سے انڈس موٹرز کے چیئرمین چلے آ رہے تھے، اس دوران انہوں نے کئی سی ای اوز کے ساتھ کام کیا اور خود بھی 2004-5 میں مختصر مدت کیلئے سی ای او رہے، بعد ازاں وہ پرویز غیاث کو اینگرو سے اپنے یہاں لے آئے۔

علی سلیمان حبیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دفتر میں ہر وقت ایک پنسل اور پیڈ ساتھ رکھتے تھے جس پر چلتے پھرتے ذہن میں آنے والے آئیڈیاز جلدی جلدی لکھتے جاتے اور اکثر اپنے ملازمین کو بھی دکھایا کرتے، پرویز غیاث سی ای او بن کر انڈس موٹرز میں آئے تو ایک دن علی سلیمان حبیب نے کاپی پنسل نکالی اور ایک چارٹ بنا کر غیاث کو دکھایا جو حبیب فیملی کی دولت سے متعلق تھا، انہوں نے پرویز غیاث کو بتایا کہ چارٹ میں ظاہر کردہ آمدن میں سے 94 فیصد صرف ان کے آٹو موبائل بزنس سے آتی ہے اوراس میں سے بھی 90 فیصد انڈس موٹرز سے حاصل ہوتی ہے۔

وہ اپنے خاندان کی ساری دولت کی ذمہ داری ایک ایسے شخص کے سپرد کر رہے تھے جو بالکل اجنبی تھا، پرویز غیاث اینگرو کارپوریشن کے نائب صدر اور چیف فنانس آفیسر (سی ایف او) رہ چکے تھے اور انڈس موٹرز جیسی بڑی کمپنی چلانے کی مکمل اہلیت رکھتے تھے لیکن علی سلیمان حبیب ایک مختلف قسم کے ‘سیٹھ’ تھے وہ ایسا اعتماد کا کلچر متعارف کرا رہے تھے جس میں کوئی بھی شخص اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے قیادت کر سکے۔

یہ اور دیگر بہت ساری چیزیں علی سلیمان حبیب کو اوروں سے ممتاز بناتی ہیں، 17 اپریل 2020ء کو وہ 63 سال کی عمر میں کراچی میں چل بسے، کاروباری براداری صرف اس لیے ان کی عزت نہیں کرتی کہ وہ کامیاب بزنس مین تھے بلکہ وہ دوسروں کو آگے بڑھنے کے مواقع دینے کے حوالے سے بھی کافی بے دھڑک تھے، وہ اپنی مرضی کے مطابق بازی کھیلنا جانتے تھے اور ان کی انہی صلاحیتوں نے رواں صدی میں ہائوس آف حبیب کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔

ہائوس آف حبیب کیا ہے؟

علی سلیمان حبیب نے زندگی کا بیشتر حصہ کراچی میں گزارا، ان کا خاندان کچھ حوالوں سے کراچی کے چنیدہ کاروباری خانداںوں میں شمار ہوتا ہے جو تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہو گیا، ان کے جد امجد اسماعیل علی نے 1841ء میں مغربی ہندوستان کے علاقے گجرات میں خواجہ مٹھا بھائی نتھو ٹریڈنگ کمپنی کا آغاز کیا، 1891ء میں ان کے بیٹے حبیب اسماعیل بھی والد کا ہاتھ بٹانے لگے اور 1922ء میں انہوں نے حبیب اینڈ سنز کی بنیاد رکھی، اسی زمانے میں حبیب اسماعیل نے کمپنی کا لوگو بنوایا جو ایک شیر اور تلوار پر مشتمل ہے جس کی نسبت حضرت علی رضی اللہ کی تلوار ذوالفقار سے ہے۔

حبیب اسماعیل کے بیٹے محمد علی حبیب دو وجوہات کی بناء پر بہت مشہور ہوئے، پہلی یہ کہ 1941ء میں انہوں نے اپنے بھائی دائود حبیب کے ساتھ مل کر حبیب بینک قائم کیا جو اب پاکستان کا سب سے بڑا بینک ہے(بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کے بعد سے حبیب خاندان کے کنٹرول میں نہیں رہا)، محمد علی حبیب کی دوسری وجہ شہرت یہ تھی کہ انہوں نے قائد اعظم کے کہنے پر حبیب بینک کو بمبئے سے کراچی منتقل کیا، ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے بانی پاکستان کو ایک خالی چیک پیش کیا اور کہا کہ نوزائیدہ  ریاست کے مالی معاملات چلانے کیلئے جتنی رقم چاہیں چیک پر لکھ دیں۔

پاکستان میں اس خاندان کے کاروبار نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی، محمد علی حبیب اور پھر ان کے بیٹوں رفیق حبیب، سلیمان حبیبِ، حیدر حبیب اور ایچ ایم حبیب نے خاندانی کاروبار کو مزید وسعت دی، 1960ء میں عالمی معیار کا حبیب بینک اے جی قائم کیا جس کا صدر دفتر زیورخ (سوئٹزر لینڈ)  میں ہے، 1960 میں ہی پٹ سن کے کاروبار کیلئے تھل جوٹ ملز قائم کی، 1970ء میں پاکستان پیپرسیک ڈویژن شروع کی۔

سلیمان حبیب کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے ایک علی سلیمان حبیب بھی تھے، وہ اور ان کے کزنز حبیب خاندان کی تیسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔

1956ء میں پیدا ہونے والے علی سلیمان حبیب کی ابتدائی تعلیم کسی ایلیٹ سکول کی بجائے خاندان کے قائم کردہ حبیب پبلک سکول میں ہوئی، وہ خاندان کے اُن پہلے بچوں میں سے تھے جنہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک بھیجا گیا اور انہوں نے یونیورسٹی آف منیسوٹا سے مکینیکل انجنئیرنگ کی ڈگری لی، بعد ازاں 1986ء میں ہارورڈ بزنس سکول سے مینجمنٹ ڈویلپمنٹ کا پروگرام مکمل کیا۔

بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کے بادل چھٹ چکے تو 80ء کی دہائی کے آغاز میں حبیب فیملی نجی سیکٹر میں دوبارہ قدم جما رہی تھی جب علی سلیمان حبیب خاندانی کاروبار میں وارد ہوئے، خاص طور سے 90ء کے آغاز میں جب حکومت نے آٹو انڈسٹری سے متعلق قواعد و ضوابط میں نرمی کی تو کئی غیر ملکی آٹو میکرز نے پاکستان میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کر کے سرمایہ کاری کی راہ نکالی۔

ہائوس آف حبیب نے مختلف کاروباروں کو خاندان کے مختلف افراد میں تقسیم کر رکھا ہے، یوں 1989ء میں قائم ہونے والی انڈس موٹرز کمپنی کی باگ ڈور علی سلیمان حبیب کے ہاتھوں میں دے دی گئی اور 1993ء میں اس کمپنی نے گاڑیاں بنانا کردیں۔ یہ ہائوس آف حبیب، ٹویوٹا موٹرز کارپوریشن اور ٹویوٹا Tsusho  کارپوریشن کا مشترکہ منصوبہ تھا، یہی کمپنی ہے جس نے آگے چل کر پاکستان میں سب سے زیادہ پسند کی جانے والی سیڈان اور ٹویوٹا کرولا متعارف کرائی، علی سلیمان حبیب پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین بھی رہے۔

جلد ہی علی سلیمان حبیب کو انڈس موٹرز میں پاکستانی اور جاپانی کلچر کے مضبوط امتزاج کا احساس ہوگیا، اس ہائبرڈ کلچرمیں جاپانی شمولیت سے جہاں مینوفیکچرنگ کے شعبے کو تقویت ملی وہیں پاکستانی شمولیت کی وجہ سے کچھ نیا کر دکھانے کا جذبہ میسر آیا، علی یہاں بھی اپنے جیسے  قابل منتظم لے کر آئے، جیسے کہ فرہاد ذوالفقار کو انڈس موٹرز کا پہلا مینجنگ ڈائریکٹر بنایا اور مظہر والجی  2001ء سے 2003ء تک کمپنی کے سی ای او رہے۔

جن دنوں علی سلیمان حبیب انڈس موٹرز کے سربراہ تھے، ان کی شہرت ایک سخت گیر، دوٹوک اور بالکل سیدھے شخص کی تھی، ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں اکثر پاکستانیوں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے مشکل درپیش ہوتی لیکن جاپانیوں کے ساتھ اچھا لگتا، وہ جاپانیوں کی ایمانداری اور وقت کی پابندی کے معترف تھے، چوں کہ وہ اکثر سفر میں رہتے تھے اور زیادہ تر جاپان ہی آتے جاتے تھے تو جاپان کے  کاروباری معیارات سے جتنا وہ واقف تھے شائد ہی پاکستان میں کوئی اور ہو۔

ان کی سربراہی میں انڈس موٹرز نے خوب ترقی کی، 1985ء سے 2005ء کے درمیان پاکستان میں مقامی (لوکلائزیشن) چیزیں بنانے اور استعمال کرنے کا رجحان بڑھا تو آٹو انڈسٹری بھی اس جانب چل پڑی اور کمپنیوں پر کچھ شرائط عائد ہو گئیں، علی سلیمان حبیب خود اس چیز کے حامی تھے لیکن  چونکہ اس نظام کے قواعد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے رکن کے طور پر پاکستان کے فرائض کے مطابق نہیں تھے اس لیے 2006ء میں حکومت نے اس کی جگہ نرخ پر مبنی (tariff-based) نظام نافذ کر دیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ علی سلیمان تجربہ کار اور محتاط ہوتے گئے، بیرون ملک تعلیم اور غیرملکیوں کے ساتھ کام کرکے انہیں کاروبار کی ملکیت اورانتظامی معاملات کو الگ الگ رکھنے کی اہمیت کا احساس ہوا، چنانچہ انہوں نے تجربہ کار انتظامیہ کو کمپنی میں لانے کا راستہ ہموار کیا، یہ اسی ہائبرد کلچر کو اَپ گریڈ کرنے کی کوشش تھی جو اب تک انڈس موٹرز میں موجود تھا، انہوں نے اپنے سی ای او کو کہا کہ وہ ایک بہترین ہیومن ریسورس سسٹم بنانا چاہتے ہیں جس میں سٹاف کے تحفظ اور صحت پر خصوصی توجہ دی جائے، انڈس موٹرز میں پیشہ ورانہ ماحول کے فروغ کیلئے وہ نئے سی ای اوز کے ساتھ ساتھ ہونڈا، فورڈ اور اینگرو جیسی بڑی کمپنیوں سے کئی لوگوں کو بھی اپنی کمپنی میں لے آئے۔

گو کہ اب بھی وہ انڈس موٹرز کے کافی معاملات خود دیکھتے تھے تاہم انہوں نے ایک باصلاحیت ٹیم کو ترقی کا موقع دیا، بہت سوں کو یاد ہو گا کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیان کراچی میں ہڑتالیں، اغواء برائے تاوان، توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات معمول بن گئے تھے اور ایسے واقعات بعض دفعہ ان کے پلانٹ کے کام میں آڑے آ جاتے لیکن علی سلیمان کے ڈی اے سکیم وَن کے پاس اپنی رہائش سے خود گاڑی چلا کر پورٹ قاسم میں انڈس موٹرز کے اسمبلنگ پلانٹ پر جاتے اور دیکھتے کہ سامان وقت پر پہنچا ہے یا نہیں۔

حبیب یونیورسٹی کا قیام

گو کہ انڈس موٹرز ہائوس آف حبیب کیلئے ریڑھ  کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتی تھی لیکن پھر بھی خاندان نے اپنی ایسی میراث چھوڑنے کی ضرورت محسوس کی جو آئندہ سالوں میں یاد رکھی جائے، اس سلسلے میں وہ پیکجز لمیٹڈ اور لمز کے بانی سید بابرعلی سے متاثر تھے اور انہی کی طرح کا کچھ کرنا چاہتے تھے، مثلاََ کراچی میں ایک ایسا شاندار تعلیمی ادارہ جو لبرل آرٹس کی تعلیم دے اور آغا خآن یونیورسٹی اور لمز سے مختلف ہو۔

 اس منصوبے کے روح رواں بھی علی سلیمان تھے، وہ آخری وقت تک 2014ء میں قائم ہونے والی حبیب یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے رکن، حبیب یونیورسٹی فائونڈیشن کے بورڈ کے ڈائریکٹر اور حبیب ایجوکیشن ٹرسٹ کے ٹرسٹی کے طور خدمات سرانجام دیتے رہے۔

وہ جانتے تھے کہ یونیورسٹی کے معاملات ان کی مہارت سے مختلف ہیں اس لیے وہ ہر رائے کو خاص طور پر اہمیت دیتے تھے، انڈس موٹرز میں انہوں نے انٹرپرینیوریل سائیڈ پر زیادہ توجہ دی اور بہترین ٹیم لے کر آئے لیکن حبیب یونیورسٹی سے متعلق انہیں معلوم تھا کہ اس کے معاملات کسی آٹو کمپنی کی طرح نہیں چلائے جا سکتے اس لیے وہ یونیورسٹی بورڈ کے ارکان کے انتخاب میں قدرے محتاط تھے، بالآخر ان کی نظر انتخاب واصف رضوی پر پڑی۔

یہ انتخاب بہترین ثابت ہوا، رضوی یونیورسٹی کی ترقی کے لیے نت نئے منصوبے لے کر آتے جن پ عملدرآمد کرانا اور ڈونرز سے منظوری لینا علی سلیمان کا کام تھا۔ اب وہ قدرے عمر میں بڑے اور تجربہ کار ہو چکے تھے اس لیے کھلے پن اور صاف گوئی سے اپنی غلطیاں تسلیم کرتے اور انہیں نا دہرانے کا عزم کرتے، وہ جلد بازی کی بجائے اس لیے بھی زیادہ محتاط ہو گئے تھے کیونکہ یونیورسٹی ان کے خاندان کی میراث تھی۔

علی حبیب نے اپنے چچا کی جگہ یونیورسٹی کے معاملات میں جو کردار نبھایا اس دوران بہت سے لوگوں نے ان میں واضح تبدیلی دیکھی، وہ تیزی سے ہائوس آف حبیب کا اصل چہرہ بن کر سامنے آئے، اس کردار کی وجہ سے ان کے اپنے خاندان میں  دیگر افراد کے ساتھ تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حبیب فیملی کے داخلی معاملات کافی اچھے ہیں۔

یونیورسٹی میں کام کے دوران علی سلیمان غیروں کیلئے تو شائد ایک رعب دار شخص تھے لیکن جاننے والوں کیلئے وہی بے باک اور دوٹوک شخصیت تھے جواُن کا خاصا تھی اور جو کاروباری حلقوں یا موجودہ تعلیمی حلقوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

کچھ خاص اوقات میں وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جاتے لیکن اپنی غلطی تسلیم کرنے بھی دیر نہ کرتے، یونیورسٹی کھلنے سے چند ماہ قبل جب انتظامیہ نے حبیب فیملی کو کیمپس ہائوسنگ پلان دکھایا تو پلان دیکھ کرعلی سلیمان نے بلند آواز میں کہا، ‘کئی بار میں نے سوچا کہ یہ بننا ممکن  نہیں، لیکن آپ نے مجھے غلط ثابت کردیا۔’ یہ لمحہ ان کے اُس کردار کا عکاس تھا کہ وہ دوسروں کو آگے بڑھنے کا موقع دیتے تھے۔

محب وطن علی سلیمان حبیب

اپریل میں ان کی وفات کے بعد تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھ گیا، ایسا ہی ایک تعزیتی ٹویٹ وزیراعظم عمران خان اپنے پرانے دوست کی وفات پر کیا، کئی سرکاری حکام نے بھی علی سلیمان حبیب کی موت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

گزشتہ 30 سالوں میں انہوں نے اسلام آباد میں بے شمار لوگوں سے روابط استوار کر لیے تھے جن کے ساتھ وہ آزادانہ طور پر آٹو سیکٹر سے متعلق پالیسیوں پر گفتگو کرتے، حکومت پر ان کی تنقید کبھی کبھار کچھ لوگوں کو پریشان کر دیتی تھی، ان کے ایک قریبی دوست نے جب ایسا کرنے سے روکا تو علی سلیمان نے جواب دیا ‘جو بات ہے، وہ بات ہے۔’

انہوں نے پاکستان بزنس کونسل کے ساتھ بھی کام کیا اور اس کے چیئرمین بھی رہے، وہ سمجھتے تھے کہ یہ گروپ پاکستان میں کاروبار کیلئے بہتر پالیسی سازی کے حوالے سے کردار ادا کر سکتا ہے، درحقیقت اپنی زندگی کے آخری پانچ مہینوں میں وہ پاکستان میں ملازمتوں کے تحفظ کے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے اور اس کے لیے وہ ایف بی آر سمیت 30 سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کرتے رہے۔

وہ معیشت کو دستاویزی شکل دینے جیسی کچھ حکومتی پالیسیوں کے معترف تھے، حالانکہ کچھ مدت کیلئے اس پالیسی کی وجہ سے کاروں کی فروخت متاثر ہوئی تھی، لیکن انہیں محسوس ہوا کہ وہ ملک کیلئے اہم ہیں اورانہوں نے دستاویزی معیشت کے حوالے سے مذکورہ ترمیم لانے کی بھرپور حمایت کی۔

شائد یہی وجہ تھی کہ کہ پرافٹ اردو نے ان کے بارے میں جس شخص سے بھی بات کی اس نے علی سلیمان حبیب کو محب وطن قرار دیا، انہیں پاکستان کی بے حد فکر تھی، اسی لیے گاہے بگاہے ملکی سمت کو درست کرنے کیلئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے تھے، انہوں نے صرف بزنس مین کے طور پر ہی زندگی نہیں گزاری بلکہ فلاحی کام بھی بڑھ چڑھ کر کرتے رہے۔

2005ء کے تباہ کن زلزلہ کے بعد علی سلیمان نے حکومت پاکستان کو Toyota Hiluxes گاڑیاں عطیہ کیں تاکہ زلزلہ زدہ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچائی جا سکے، 2009ء میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے خاندانوں کی نا صرف راشن وغیرہ کے ساتھ امداد کی بلکہ ان کی بحالی کیلئے مراکز بھی قائم کیے۔

علی سلیمان بیرون ملک کانفرنسوں میں جاتے تو پاکستانی ثقافت کی نمائندگی کرتے، کوئی باذوق شخص مل جاتا تو اسے پاکستانی کلاسیکل موسیقی اور اردو شاعری سے ضرور روشناس کراتے۔

انہوں نے اپنی زندگی ہائوس آف حبیب کی میراث کو زندہ رکھنے کیلئے وقف کردی، شائد اس سے بڑھ کر ان کی تعریف نہ کی جا سکے کہ “انہوں نے خاندان کی تعریف بدل کر اس میں اُن ہزاروں پاکستانیوں کو شامل کر لیا جن کی انہوں نے اپنی کمپنیوں میں ملازمت دے کر یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دے کر مدد کی اور انہوں نے دوسروں کو بھی راستہ دکھانے کی اجازت دے کر یہ سب کیا۔”

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here