لاہور: کورونا وائرس کی حالیہ وباء کے باعث پاکستان میں دیگر کاروباروں کی طرح پھولوں کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے، وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کئے گئے لاک ڈاؤن کے باعث پھولوں کی مانگ میں نمایاں کمی ہوئی ہے جبکہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات اور عوامی اجتماعات پر پابندی بھی اس کاروبار کو متاثر کرنے کے اسباب میں شامل ہے۔
فلوریکلچر (Floriculture) کے ماہرین کے مطابق پھولوں کے خریدار نہیں ہیں جس کی وجہ سے پھول ضائع ہو کر کوڑے کا حصہ بن رہے ہیں، ٹرانسپورٹ کی بندش بھی کاروبار کو متاثر کر رہی ہے کیونکہ پھول منڈیوں تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
محمد آصف گزشتہ کئی سالوں سے پھولوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور اور اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں ان کی پھولوں کی ذاتی دکان ہے، وہ کہتے ہیں چوں کہ پھول کی عمر کم ہوتی ہے اور وباء کی وجہ سے طلب نہ ہونے اور مارکیٹ تک نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے 60 تا 70 فیصد پیداوار کھیتوں میں ہی ضائع ہو رہی ہے جس سے پھول کاشت کرنے والوں کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا، “ہماری دکان پر روزانہ کی بنیاد پر سیل 30 ہزار کے لگ بھگ تھی جو رمضان اور عید پر دو تین گنا زیادہ ہو جاتی ہے لیکن اس بار کورونا وائرس اور لاک ڈائون نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، مارچ میں لاک ڈائون شروع ہونے سے لے کر اب تک لاکھوں کا نقصان ہو چکا ہے”۔
محمد آصف نے کہا کہ حکومت نے کورونا وائرس کے باعث متاثر ہونے والے ہر چھوٹے بڑے کاروبار کیلئے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے لیکن پھولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کیلئے ایسا کوئی پیکج نہیں دیا۔ حکومت کو چاہیے اس شعبہ کو تباہی سے بچائے کیونکہ ملک میں ہزاروں خاندانوں کا روزگار پھولوں کی منڈیوں اور نرسریوں میں کام سے جڑا ہے۔
پھول منڈیوں کی بندش، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور مانگ میں کمی کے باعث دیہی علاقوں میں پھولوں کی کاشتکاری سے وابستہ چھوٹے کسان بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے محمد طیب نے بتایا کہ وہ دس سال سے سرخ گلاب کی کاشت کر رہے ہیں اور میں کافی فائدہ ہے، چھوٹے کسانوں کو دیگر فصلوں کی نسبت پھولوں کے کاروبار سے زیادہ آمدن ہوتی ہے، دیہات میں غریبوں اور مزدوروں کو پھولوں کی چنائی کرنے پر روزانہ کی بنیاد پر اجرت ملتی ہے، چنائی کا کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں جو اب کام نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہو چکی ہیں۔
عمران انور دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ایسی کمپنی کے مینجر ہیں جو شادی بیاہ سے لے کر سرکاری تقریبات تک پھولوں کی سجاوٹ کا کام کرتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ لاک ڈائون کے باعث صرف چار ہفتوں میں ان کے 6 کروڑ کے آرڈرز منسوخ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو دیگر شعبوں کی طرح پھولوں کی منڈیوں، مارکیز اور شادی ہالوں کو بھی حفاظتی اقدامات کی شرط پر کھول دینا چاہیے۔
ضلع قصور کی تحصیل چونیاں اور پتوکی کے دیہی علاقے نرسریوں اور پھولوں کی کاشت کیلئے مشہور ہیں، یہاں سے انواع و اقسام کے پھول اور پودے ملک بھر میں فروخت کیلئے بھیجے جاتے ہیں اور بڑی تعداد میں بیرون ملک بھی برآمد بھی کیے جاتے ہیں لیکن اب مندی کی وجہ سے اس کاروبار سے وابستہ سینکڑوں خاندان تشویش کا شکار ہیں۔
حسنین شوکت پھولوں کی مقامی منڈی میں لوڈنگ کا کام کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عید کے قریب گلاب اور دیگر پھولوں کا کاروبار عروج پر ہوتا تھا اور کاشت کاروں کو قیمت بھی بہتر ملتی تھی، لوڈنگ کرنے والے مزدور بھی روزانہ کی بنیاد پر 1500 روپے تک کما لیتے تھے لیکن اب کاروبار بالکل بند ہے، پھول منڈی میں لوڈر مزدور فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور حکومتی ریلیف پیکج سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔
پھولوں کے ایک بڑے تاجر محمد نوید عرف مٹھو نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں وباء سے قبل بڑی مقدار میں پھول لائے جاتے تھے اور خریدار بھی زیادہ تھے تاہم لاک ڈاؤن کے باعث کاروبار شدید متاثر ہوا ہے، مندی کی وجہ سے نہ صرف پھول اگانے والے متاثر ہوئے ہیں بلکہ ان کے کاروبار سے وابستہ دیگر چھوٹے بڑے تاجر بھی متاثر ہوئے ہیں اور مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
سلطان فلاور ٹریڈنگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو خواجہ رضوان سلطان نے اس حوالے سے کہا کہ پھولوں کے کاروبار کا تعلق دیہی معیشت سے ہے اور لاک ڈاؤن کے باعث پھولوں کے کاروبار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے دیہی معیشت پر بھی اثر پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پھول کی قدرتی عمر کم ہونے کی وجہ سے اس کو لمبے عرصہ تک سٹور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پھولوں کی پیداوار طلب نہ ہونے کے باعث 70 تا 80 فیصد تک کچرے کا حصہ بن رہی ہے۔ امید ہے معاشی سرگرمیوں میں بہتری اور کاروباری آسانیوں کے بعد پھولوں کے کاروبار میں بھی ازسرنو بہتری آئے گی۔ انہوں نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا کہ پھولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کی معاشی بحالی کیلئے ریلیف پیکیج سے مالی معاونت فراہم کی جائے۔