پاکستان میں مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہونے والی ہر نئی حکومت چاہے وہ زور زبردستی سے لائی گئی یا آئینی طور پر آئی ہو، اس کے دور میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب ہر وہ مسئلے کی ذمہ داری اپنے سے پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہے۔
ایسا شائد زیادہ ترمعیشت کے معاملے میں ہوتا ہے اور الزام تراشی کا یہ سلسلہ دو سال تک چلنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے کیونکہ تب تک سسٹم میں استحکام آچکا ہوتا ہے اور حکومت زعماء ’یہ ہماری غلطی نہیں ہے‘ کی گردان چھوڑ دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں یہ دور ختم ہونے میں زیادہ دیر لگ رہی ہے کیونکہ سسٹم میں جو استحکام آنا چاہیے تھا وہ ابھی تک نہیں آسکا، عوام بے روزگاری اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہیں اور ایسا حکومتی معاشی ٹیم میں بھانت بھانت کے لوگوں کی نا اتفاقی اور انائوں کی وجہ سے درست سمت کا تعین نہ ہونے کے باعث ہے۔
کورونا وائرس نے صورتحال کو مزید بگھاڑ دیا ہے اور حکومت نے اب تک جو چند کامیابیاں معاشی محاذ پر حاصل کی تھیں یہ وبا انہیں بھی ختم کردے گی۔ سیاسی عدم استحکام اور کورونا کے باوجود جو معاشی پالیسی کام کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے وہ فارن ایکسچینج کی ہے۔
ڈالر کا اب اس طرح سے ذکر نہیں ہو رہا ہے جیسا کہ پی ٹی آئی حکومت کے آغاز میں ہوا کرتا تھا، دراصل روپے کی قدر کم ہو تو ٹی وی پر شاندار ہیڈلائنز بنتی ہیں، مگر اس کی قدر میں اضافہ، جو کہ حال ہی میں دیکھا بھی گیا، نسبتاً غیر دلچسپ چیز بن جاتی ہے۔
اس مضمون میں ہم سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ ماضی کی فارن ایکسچینج پالیسی کس طرح نقصان دہ تھی اور پی ٹی آئی کی حکومت نے مارکیٹ کو نسبتاً مستحکم رکھنے کے لیے کون سے اقدامات اُٹھائے اور کچھ عرصے بعد ڈالر اور روپیہ ایک دوسرے کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہوں گے۔
ڈار ازم
جون 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی تو ڈالر مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں کے ذخائر جو کہ 10.28 ارب ڈالر تھے کی بناء پر 98.50 روپے کی سطح پر تھا مگر دسمبر 2013ء میں اس کی قدر میں اضافہ ہوا یہ 108.20 روپے کے برابر ہو گیا۔
اگرچہ ستمبر 2013ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر قرض کا معاہدہ طے پا گیا تھا مگر پہلی قسط کی آمد میں وقت لگا اور جنوری 2014ء تک زرمبادلہ کے ذخائر 7.98 ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر پہنچنے کے باعث ملک میں ڈالرز کی شدید قلت پیدا ہوگئی تھی۔
آئی ایم ایف کی مدد 2014ء کی پہلی سہ ماہی میں آئی جس نے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈٓار کو عالمی مالیاتی ادارے کے فراہم کردہ ڈالرز کی مدد سے روپے کو امریکی کرنسی کے مقابلے میں احمقانہ حد تک اوور ویلیو رکھنے کے قابل بنا دیا۔
مارچ 2014ء میں ڈالر 104.90 روپے کے برابر تھا مگر جون میں یہ 98.80 روپےکی سطح پر آ گیا جبکہ دسمبر میں یہ 100.80 روپے کے برابر ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیے: چینی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری پر منافع کی مد میں 94.8 ملین ڈالر چین منتقل کئے
اس وقت آئی ایم ایف اور دوسرے ڈونرز کی مدد کی بدولت زرمبالہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا اور یہ 15.26 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے۔ بہر حال اگست 2015 میں غیر مستحکم پالیسی ریٹ کی وجہ سے بننے والا پریشر منظر عام پر آنا شروع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ڈالر چند ہی دنوں میں 104.30 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔
جون 2017ء تک یہی صورتحال برقرار رہی، تب تک آئی ایم ایف کا تین سالہ پروگرام بھی ختم ہوچکا تھا، اکتوبر 2016ء میں زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے تھے اور ابھی ن لیگ کی حکومت کے دو سال باقی تھے۔
ڈار البتہ مارکیٹ میں ڈالر پھینکتے رہے جس کا نتیجہ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی صورت میں سامنے آیا۔ 5 جولائی 2017ء کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر چار روپے کم ہونے سے مزید فالٹ لائنز کی نشاندہی ہوئی۔
28 جولائی کو نواز شریف پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ سے نا اہل قرار پائے، دسمبر کے آغاز تک ڈالر105.50 روپے کا تھا مگر دو دن بعد ہی یہ یکدم 110.60 روپے کی سطح پر پہنچ گیا، اسی دوران زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوکر ساڑے 19 ارب ڈالر پر آ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب لیگی حکومت کی ایکسچینج ریٹ پالیسی جاتی امراء کے ڈرائنگ روم سے چلانا ممکن نہ رہی۔
18 مارچ 2017ء کو ڈالر 115روپے اور جون میں 121.40 روپے کے برابر ہوگیا۔ یہ وہ اضافہ تھا جسے نہ مارکیٹ قابو کرسکتی تھی نہ مرکزی بنک اور نہ خود اسحاق ڈار۔
اس سب میں ایک چیز اور بھی شامل تھی، اسحاق ڈار اور مرکزی بنک کی اس وقت کی انتظامیہ کے درمیان ہونے والا جھگڑا۔ وزیر خزانہ کے طور پر اسحاق ڈار نے مرکزی بنک کے اختیارات پر قبضہ جمالیا تھا، یہاں تک کہ مانیٹری پالیسی کا اعلان گورنر سٹیٹ بینک سے پہلے وہ خود کرنے لگے حالانکہ یہ گورنر کا اختیار تھا، سٹیٹ بینک کے معاملات میں یہ مداخلت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں شامل اُن شرائط کے باوجود کی جاتی رہی جن کے مطابق مرکزی بنک کو خود مختار بنایا جانا تھا۔
سٹیٹ بنک کی جانب سے وزیر خزانہ کی ہدایات یعنی مارکیٹ میں ڈالر پھینکتے رہنے کے احکامات پر رضامندی ظاہر نہ کرنا اور مارکیٹ فورسز کو اپنی من مانی جاری رکھنے کی اجازت دینا بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجوہات میں سے ایک وجہ تھی۔
16 جولائی 2018ء بروز جمعہ کاروباری ہفتے کے اختتام پر ڈالر 121.55 روپے کا ہونے کے بعد نئے کاروباری ہفتے کےآغاز پر 128روپے کا ہوگیا، یہ سلسلہ ایک ہفتے تک چلا اور یہ مارکیٹ کا خود کو آہستہ آہستہ درست کرنے کا آغاز تھا، الیکشن 2018ء کے وقت ڈالر 124 روپے پر تھا۔
اسحاق ڈار کی فارن ایکسچینج پالیسی میں مداخلت کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ڈالر 123.90 روپے، زرمبادلہ کے ذخائر 16.39 ارب ڈالر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 5.7 فیصد کے برابر ملا۔
عمران خان کیا تبدیلیاں لائے؟
پی ٹی آئی کی فارن ایکسچینج پالیسی اسحاق ڈار کی نسبت خاصی معقول ہے لیکن اس کی وجہ سے یکدم روپے کی قدر کم ہو گئی اور ڈالر مہنگا ہوتا تو یہ پالیسی غیر مقبول ہو گئی۔
عمران خان کی معاشی ٹیم سے اُمید کی گئی کہ وہ آنے والے سالوں کے لیے ایک پلان تشکیل دے گی اور مشکل کا مردارنہ وار مقابلہ کرتے ہوئے 90 دن میں صورت حال پر قابو پا لے گی، مگر روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی 15 فیصد پر پہنچ گئی جس نے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔
کچھ عرصہ بعد پی ٹی آئی نے اہم تبدیلیاں کی جس میں اسد عمر کو آٹھ ماہ بعد وزیرخزانہ کے عہدے سے ہٹانا بھی شامل تھا۔ یہ وہ شخص تھے جنہیں سالوں سے عمران خان پی ٹی آئی کا دماغ اور وزیر خزانہ کے منصب کے لیے موزوں ترین قرار دیتے آ رہے تھے۔
اسد عمر کو ہٹائے جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں کر پا رہے تھے، ان کی برطرفی کے بعد آئی ایم ایف نے ڈاکٹر رضا باقر کی ’ اپنے آدمی‘ کے طور پر تعیناتی کروائی تاکہ نئی فارن ایکسچینج پالیسی کا سختی سے نفاذ کروایا جا سکے۔
نئی معاشی ٹیم کے آنے سے پہلے ہی روپے کی قدر میں کچھ کمی کی جاچکی تھی تاکہ آئی ایم ایف کویہ باور کرایا جاسکے کہ پاکستان حالات کی درستگی کے لیے سخت قدم اُٹھانے پر تیار ہے۔ ایسا اس لیے بھی کیا گیا کیونکہ مالی سالی 2017-18 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈٓالر تک پہنچ گیا تھا اور اسے نیچے لانے کے لیے ضروری تھا کہ درآمدات میں کمی لائی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے: رواں سال پاکستان کی ترسیلات زرکا حجم 20 سے لیکر 21 ارب ڈالر تک رہنے کا امکان
اکتوبر2018ء کے دوسرے ہفتے میں پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 9 روپے کم ہوگئی جس سے ڈالر 133.60 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، دسمبر میں پانچ روپے مزید مہنگا ہو کر ڈالر 138.60 روپے کا ہوگیا۔ اس دوران زرمبادلہ کے ذخائر جو کہ 13 سے 15 ارب ڈٓالر کے درمیان تھے کو ڈالر کو لگام ڈالنے کے لیے مارکیٹ میں نہیں دھکیلا گیا، یہ وہ وقت تھا جب زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے پاکستان کے دوست ممالک نے مدد کی حامی بھری۔
روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہا اور یہ وہاں تک پہنچ گیا جہاں مرکزی بنک اسے رکھنا چاہتا تھا۔ مئی کے وسط میں ڈالر 141.40 پر پہنچنے کے بعد 151 روپے کا ہوا اور پھر یہ 160 روپے کی سطح تک چلا گیا۔
آئی ایم ایف پیکج کی پہلی قسط پہنچنے کے بعد جہاں بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا وہیں زرمبادلہ کے ذخائر بھی 18.8 ارب ڈٓالر ہوگئے۔ جنوری 2020ء تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ درآمدات میں کمی کی وجہ سے 75 فیصد کم ہوگیا اور یہ 9.48 ارب ڈالر سے 2.65 ارب ڈالر رہ گیا۔ اس وجہ سے پاکستانی کرنسی کی قدر میں پانچ روپے بہتری آئی اور ڈالر 155 روپے پر آ گیا اور یہ وہ وقت تھا جب سٹیٹ بنک نے بھی سکون کا سانس لیا۔
کورونا وائرس کے منفی اثرات
ہم نے مختلف بنکوں کے فارن ایکسچینج ڈیلرز سے مڈ ٹرم میں مارکیٹ کا احوال جاننے کی کوشش کی۔ کورونا وائرس کا مارکیٹ پر زیادہ اثر نہیں ہوا اور غیر یقینی بھی کم ہے، چیزیں تبدیل ہوئی ہیں مگر عام اتفاق تھا کہ ’’روپے کی قدر میں مزید بہتر ہوگی کیونکہ آنے والے مہینوں میں زرمبادلہ کے ذخائر کی مزید بڑھنے کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی بہتری آئے گی، ڈالر مڈ ٹرم کے دوران کم از کم 145 اور زیادہ سے زیادہ 155 روپے تک رہنے کا امکان ہے‘‘۔
یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ ڈالر کے 180 اور 200 روپے تک پہنچنے کی باتیں غیر حقیقی تھیں، ایک بڑے بنک کے فارن ایکسچینج ڈیلر کا کہنا تھا کہ ’’عالمی سطح پر ایک معاشی بحران آئے گا جس سے سسٹم کو زوردار دھچکا لگےگا‘‘۔
یہ دھچکا کورونا کی آمد ہے، اس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ سماجی دوری کے ذریعے کوئی بھی ملک اپنی آبادی کو وائرس سے بچا سکتا ہے مگر ایسا کوئی طریقہ نہیں جس کے ذریعے اس ملک کی معیشت کو اس وائرس کے اثرات سے بچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے: ‘کورونا وائرس کے باعث برآمدات کا ہدف پورا کرنا مشکل، 3 ارب ڈالر خسارہ ہو گا’
پاکستان بھر میں لاک ڈاؤن کے باعث صرف ضروری صنعتیں ہی چل رہی ہیں وہ بھی محدود صلاحیت کے مطابق۔ سندھ جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے وہاں مارچ کے وسط میں ہی لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا جبکہ دوسروں صوبوں میں اس کا نفاذ بعد میں کیا گیا، وفاق میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے کافی ہچکچاہٹ پائی جا رہی تھی۔
اس صورتحال کے باعث روپیہ بھی دباؤ کا شکار نظر آیا اور 9 مارچ کو ڈالر 155 کی حد کو توڑ کر 160 روپے کی سطح پر جا پہنچا، 25 مارچ کو روپے کی قدر میں پانچ روپے کی مزید کمی سے ڈالر 165 روپے کا ہوگیا اور صرف پانچ دن بعد یہ حد بھی ٹوٹ گئی۔
پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ملک کے ایک ممتاز کرنسی ڈیلر نے بتایا کہ کورونا وائرس کے علاوہ ملک سے ہاٹ منی کا انخلاء بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بنا۔
سٹیٹ بنک کے گورنر رضا باقر نے شرح سود 13 فیصد پر رکھ کر سپیشل کنورٹیبل روپی اکاؤنٹ ( ایس سی آر اے ) کی صورت میں 3.25 ارب ڈالر کا ایک مساوی ذخیرہ قائم کردیا جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی مالیاتی مارکیٹوں میں اپنا پیسہ رکھوانے کا موقع مل گیا۔
مارچ کے مہینے میں شرح سود میں کمی کے پہلے اشارے کیساتھ ہی اس پیسے کا انخلاء شروع ہوگیا اور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں 225 پوائنٹس کی کمی کے بعد اب تک 2.5 ارب ڈالر ملک سے باہر جا چکے ہیں، شرح سود تیسری مرتبہ کمی کے بعد اب 9 فیصد پر آ چکی ہے۔
مارکیٹ ڈالر کے 170 روپے کے ہونے کی اُمید کر رہی تھی مگر دو اہم واقعات کی بدولت ایسا نہیں ہوسکا۔ ان میں سے ایک تو جی 20 ممالک کی جانب سے غریب ممالک بشمول پاکستان کی قرض ادائیگیاں ایک سال کے لیے مؤخر کرنا تھا جبکہ دوسرا تھا آئی ایم ایف کی جانب سے 1.4 ارب ڈالر کا ہنگامی قرض جاری کرنا۔ ان دونوں واقعات کے باعث روپے کی قدر میں چھ فیصد کا اضافہ ہوا اور اس تحریر کے لکھے جانے کے وقت تک ڈالر 160.50 اور 161.50 روپے کے درمیان مستحکم تھا۔
بیرون ملک ہزاروں پاکستانی ملازمین کی نوکریاں ختم ہونے کی وجہ سے ملک کو ترسیلات زر میں کمی ہو گی لیکن عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی 30 فیصد کمی سے ادائیگیوں کا توازن قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔
موجودہ حالات کے تناظر میں قلیل سے درمیانی مدت کے لیے کرنسی مارکیٹ میں ڈالر رکھنا دانشمندانہ فیصلہ لگتا ہے۔ ڈالر کے ملک سے انخلا کا باعث بننے والے دو اخراجات یعنی قرضوں کی ادائیگی اور تیل کی درآمد تو کم از کم ایک سال کے لیے صفر ہوں گے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی کچھ فائدہ ہوگا جو کہ اطمینان بخش سطح سے قدرے کم ہو کر 17.3 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں۔ لیکن کورونا بحران سے باہر آنے کے بعد مالی خسارہ ملک کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے بھی بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔