اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کل (ہفتہ) سے لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکل میں ہے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری طبقے، دیہاڑی دار مزدوروں، محنت کشوں، دکانداروں، رکشہ و ٹیکسی ڈرائیوروں سمیت نچلے و درمیانے طبقے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام ایس او پیز کی سختی سے از خود پابندی کریں، پولیس کے ذریعے چھاپے مار کر یہ مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے پر صوبوں کے خدشات ہیں، ان کے بغیر فیصلے نہیں کرنا چاہتے، صوبوں سے مشاورت جاری رکھیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 26 فروری کو کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا، 13 مارچ کو جب ملک میں صرف 26 کیس تھے تو حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا اور تب سے آج تک حکومت نے مختلف قسم کے اجتماعات اور عوام کے اجتماع کی جگہوں کو بند کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے اور بڑی جلدی ایک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتا ہے، اس لئے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ذریعہ سماجی فاصلہ ہی ہے۔ اسی لئے پوری دنیا نے لاک ڈاؤن کا راستہ اختیار کیا، ہم نے بھی اپنے ملک میں ایسا ہی کیا لیکن ہمارے حالات چین، امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہیں۔ خدشہ تھا کہ لاک ڈاؤن سے دیہاڑی دار، چھابڑی والا، مزدور پیشہ اور محنت کش طبقہ جو 75 سے 80 فیصد تک رجسٹرڈ بھی نہیں، شدید متاثر ہوگا، حکومت کو فکر تھی کہ ان کا کیا بنے گا اور وہ کیسے اپنا گذارہ کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت لاک ڈاؤن کھولنے کے حوالے سے مسلسل غور و فکر کرتی رہی ہے۔ پہلے ہم نے تعمیرات کے شعبہ کو کھولنے کا فیصلہ کیا تھا اور آج ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہفتہ کے روز سے لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار کھول دیا جائے کیونکہ لاک ڈاؤن سے ملک میں چھوٹے دکاندار، دیہاڑی دار، رکشہ و ٹیکسی ڈرائیور، محنت کشوں، سفید پوش، درمیانے و چھوٹے درجے کے کاروباری طبقے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور خطرہ ہے کہ کہیں ان کے کاروبار مستقل طور پر بند نہ ہو جائیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ لاک ڈاؤن کھولنے سے صورتحال بگڑنے کا خدشہ موجود ہے لیکن عوام کو ذمہ داری اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس طرح ہم اموات میں اضافے کے خدشہ سے بچ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج دیا ہے، جتنی تیزی سے ہم نے یہ کام کیا، دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں نہیں ہو سکا۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے حکومت کے لئے بھی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ ٹیکس میں 35 فیصد کمی آئی، برآمدات بھی کم ہو گئیں جبکہ حکومت کے پاس پیسے کی پہلے ہی کمی ہے، اس صورتحال میں حکومت لاک ڈاؤن جاری رہنے سے کتنا مزید پیسہ لوگوں کو دے سکے گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہر شعبہ کھولے جانے کا تقاضا کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے معیشت پر بہت اثرات مرتب ہوئے۔ ہماری ملکی معیشت جس کی حالت پہلے ہی اچھی نہیں تھی، اس صورتحال سے مزید متاثر ہوئی۔ بھارت کے معاشی حالات ہم سے بہتر ہیں لیکن ہم نے بھارت سے زیادہ بڑا پیکیج دیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اب ہمیں عقل مندی کے ساتھ یہ کام کرنا ہے۔ اب جو مرحلہ شروع ہو رہا ہے اس میں ہم کتنے کامیاب ہوتے ہیں، اس میں بہت بڑا ہاتھ عوام کا ہے۔ قوم بن کر اگر ہم نظم و ضبط اختیار کریں گے اور وہ ایس او پیز جو ہر شعبہ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں، کی پابندی کریں گے تو ہم کامیاب ہوں گے۔ پولیس چھاپے مار کر یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتی، عوام کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ جرمنی میں بھی بہت اموات ہوئیں لیکن وہاں بھی لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جرمن چانسلر نے مجھے بتایا کہ ان کے عوام میں نظم و ضبط ہے اور انہوں نے ذمہ داری لی ہے، اس لئے ان کا لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کامیاب رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت جگہ جگہ جا کر ایس او پیز پر عمل درآمد کے حوالے سے زبردستی نہیں کر سکتی، شہریوں کی اپنی ذمہ داریاں بھی ہیں جو انہیں ادا کرنی ہیں۔ عوام حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی تو یہ مسئلہ حل ہوگا۔ انہوں نے ٹائیگر فورس پر زور دیا کہ وہ عوام میں اس حوالے سے آگاہی اور شعور پیدا کرے اور مزدوروں کی رجسٹریشن سمیت دیگر مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔ وقت آ گیا ہے کہ ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہم ایس او پیز اور شرائط و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر ایک قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کے حوالے سے پوری طرح اتفاق رائے نہیں ہے، میرا خیال ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو کھولنا چاہئے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ عام آدمی استعمال کرتا ہے اور روزگار پر جانے کے لئے اسے پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے، یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے لیکن صوبوں کے خدشات ہیں اس لئے ہم ان کے بغیر فیصلے نہیں کرنا چاہتے۔ دنیا میں جہاں 30، 30 ہزار اموات ہوئی ہیں وہاں بھی پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہے لیکن ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ۔ اس حوالے سے صوبوں سے مشاورت جاری رکھیں گے اور پاکستان میں بھی ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کی کوشش کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سوا لاکھ پاکستانی جو ملک سے باہر پھنسے ہیں، وہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر انہیں پاکستان لاتے ہیں تو انہیں قرنطینہ میں رکھنا پڑے گا اور ان کے ٹیسٹ کرنے پڑیں گے جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی اس حوالے سے سہولیات کی کمی ہے۔ صوبوں سے اس معاملے پر بھی بات چیت کر رہے ہیں اور یہ تجویز زیر غور ہے کہ انہیں ان کے گھروں پر ہی قرنطینہ کر دیا جائے لیکن صوبوں کی مشاورت سے اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔