سنگاپور: عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخوں میں تاریخی کمی کے بعد دنیا بھر بالخصوص ایشیائی ملکوں میں اپنے آئل ذخائر بڑھانے کی دوڑ لگ چکی ہے جن میں بعض ترقی یافتہ ملک بھی شامل ہیں۔
توانائی اور ماحول کے حوالے سے کنسلٹینسی فراسٹ اینڈ سلیوان کے علاقائی سینئر نائب صدر روی کرشناسوامی کہتے ہیں کہ آئل سٹوریج کا سلسلہ 1970ء کی دہائی میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران پیدا ہونے والے تیل کے بحران کے بعد امریکا، چین اور روس جیسے ملکوں نے شروع کیا تھا جس کا مقصد کسی ہنگامی صورت میں ملک کے اندر پیداواری، کاروباری اور سفری ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
اس کے بعد 1979ء کے انقلاب ایران اورعراق ایران جنگ کے باعث سپلائی متاثر ہونے سے آئل سٹوریج کی اہمیت میں اضافہ ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چین نے اپنے اعداد و شمار کبھی ظاہر نہیں کیے تاہم ایک اندازے کے تحت اس کے تیل کے ذخائر 550 ملین (55 کروڑ) بیرل کے قریب ہیں۔
تاہم چائنہ نیشنل پٹرولیم کارپوریشن کا کہنا ہے کہ تیل کے موجودہ ذخائر ہنگامی صورتحال میں 90 روز کی ملکی ضروریات پوری کرنے کے بین الاقوامی ادارہ برائے توانائی (آئی ای اے) کے معیار سے کہیں کم ہیں۔
امریکا کے اس وقت محفوظ ذخائر کا تخمینہ 630 ملین (63 کروڑ) بیرل اور جاپان کا 500 ملین بیرل ہیں جو اس کی سات ماہ کی ضرورت کے لیے کافی ہے تاہم بھارت کے ذخائر کا حجم 40 ملین بیرل ہے جو اس کی صرف 10 روز کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔
آئی ای اے کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے تیل کے محفوظ ذخائر اس کی 90 روز کی درآمدی ضرورت کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اکثر ممالک تعمیرات کے بھاری اخراجات سے بچنے کے لیے یہ تیل عموماً پتھریلی غاروں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔
امریکا میں یہ تیل خلیجی ساحل کے قریب نمک کی غاروں میں محفوظ کیا جاتا ہے، تاہم بعض ممالک اسے سطح زمین کے اوپر بنے ٹینکوں میں جمع کرتے ہیں جن میں جاپان بھی شامل ہے۔
موجودہ صورت حال میں جبکہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کو معاشی گراوٹ کا سامنا ہے اور تیل کی کھپت میں تاریخی کمی آ چکی ہے، ایسے میں عالمی منڈی میں امریکی خام تیل منفی کی سطح تک گر کر واپس لوٹا ہے تاہم کچھ ممالک تیل اس لیے ذخیرہ کر رہے ہیں تاکہ کم قیمتوں کے باعث زیادہ خریداری کرکے اپنے ہنگامی ضرورت کے سٹاک میں اضافہ کیا جا سکے۔