کووڈ 19 سے ریٹیل سیکٹر شدید متاثر، لیکن ’سو کمال ‘ جیسے برانڈ عالمی وباء کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں؟

ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کی معیشت کورونا کے باعث معاشی سست روی اور ریٹیل سیکٹر شید دبائو کا شکار ہے ایسے میں ’سو کمال‘ اُمید سے بھر پور ہے اور اس صورتحال کو بھی آگے بڑھنے کا موقع سمجھتا ہے

2571

پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث کاروبار دباؤ کا شکار ہیں اور اس غیر متوقع آفت سے نمٹنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔

مہلک وائرس کے اپنی انتہا کو پہنچنے سے پہلے ہی دنیا میں صدی کی سب سے بڑی کساد بازاری کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ سب سے بڑا دھچکا ریٹیل سیکٹر کو لگا ہے جس کی برآمدات منسوخ ، سٹورز بند اور آن لائن ڈیلیوری کا نظام بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔

چھوٹے کاروبار تو اس عالمگیر وبا کے باعث پیدا شدہ معاشی بحران کی وجہ سے بالکل ہی بند ہو جائیں گے جس سے لاکھوں لاگ بے روزگار ہوں گے، اس بحران کے جھٹکے بڑے کاروباروں کو بھی ہلا کر رکھ دیں گے۔

اس وبا کے معاشی اثرات صرف وہی کاروبار سہہ سکیں گے جن میں ایسا کرنے کی تھوڑی بہت صلاحیت ہوگی اور جو حوصلے کیساتھ حالات پر نظر رکھتے ہوئے وقت گزاریں گے۔

ایسے ہی کاروباروں میں سے ایک ’سو کمال‘ ( So Kamal) ہے جو پاکستان کی کپڑے کی مارکیٹ خصوصاً لان میں تیزی سے اپنا نام بنا رہا ہے۔ اگر کورونا کی وبا نہ پھوٹتی تو ’سو کمال‘ اور اس کے حریفوں گُل احمد، سفائراور الکرم سٹوڈیو وغیرہ کے مابین ونٹر کلیئرنگ سیل اور نئے گرمیوں کے لیے نت نئے پرنٹ کی آمد کے حوالے سے مسابقتی دوڑ چل رہی ہوتی۔

اگرچہ حالات ایک دن معمول پر آ ہی جائیں گے مگر لوگوں کو یہ سوچ کھائے جارہی ہے کہ یہ وائرس کتنا معاشی نقصان پہنچائے گا؟ لیکن اس سال یہ چیز مختلف ہوگی کہ سیل لوٹنے والوں کا رش اور لمبی لمبی قطاریں کپڑوں کے بڑے سٹورز کے باہر نظر نہیں آئیں گی۔

کیا یہ برینڈز وائرس کے گزرنے کے بعد اگلی گرمیوں میں موجود ہونگے؟ اگر ہونگے تو کیا انکی ڈیمانڈ وہی رہے گی جو وائرس سے پہلے تھی؟

پرافٹ اردو نے اس حوالے سے ’سو کمال‘ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) ارم احمد کے ساتھ ایک نشست رکھی اور ان سے فیشن، ریٹیل بزنس اور اس کے مستقبل سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کا برینڈ اس کورونا وائرس جیسی عالمگیر وباء اور لاک ڈائون کا مقابلہ کیسے کر رہا ہے اور ان کے لیے اس میں اُمید کا پہلو کیا ہے؟

ایک روایتی چینیوٹی کہانی

اگرچہ حالات بُرے ہیں مگر ارم احمد پھر بھی کاروبار سے متعلق ہی سوچتی ہیں کیونکہ ان کی فلاسفی ہے کہ فیشن کے بارے میں سوچتے جائیں تو آپ کپڑے بیچنے میں کامیاب ہوجائیں گے، وہ موجودہ بحران کو ’ سو کمال‘ کی آن لائن موجودگی کو بڑھانے کا موقع سمجھتی ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ انکے فیشن ریسرچ ڈیپارٹمنٹ نے کپڑوں کی تیاری کے لیے ڈیزائننگ ٹیم کے ساتھ مل کر سخت محنت کی ہے تاکہ اس سیزن میں عمدہ اور بے مثال ڈیزائن سامنے لائے جا سکیں۔

ارم احمد ضیاء دور کے سینیٹر مرحوم شیخ اعجاز احمد کی صاحبزادی ہیں،  شیخ اعجاز احمد کراچی میں بڑے ٹیکسٹآئل مل مالکان میں سے ایک تھے اور کراچی میں بھی اُن کی پہچان چینیوٹ سے تعلق رکھنے والی تاجر برادری کے ممتاز رکن کی تھی۔

ارم اگرچہ کراچی میں پلی بڑھی ہیں مگر انہوں نے چینیوٹی ثقافت کو فخریہ اپنایا، اٹھارہ برس کی عمر میں انکی شادی چینیوٹ سے ہی تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت احمد کمال سے ہوئی جو کہ کمال لمیٹیڈ کے سی ای او ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ریٹیل بزنس میں عروج حاصل کرنے کے بعد Saphire کا ای کامرس میں قسمت آزمائی کا فیصلہ

45 دن کے لاک ڈاؤن سے ریٹیل سیکٹر کو 900 ارب روپے نقصان، لاکھوں نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ

شادی کے پہلے بیس سال تو وہ گھرداری میں مصروف رہیں مگر یہ چیز انہیں ان کے دوسرے شوق پورے کرنے سے نہیں روک سکی۔  انہوں نے Rhodec International  سے انٹیرئیر ڈیزائن کی تعلیم حاصل کی اور فیشن اور ٹیکسٹائل کی دنیا سے بھی جڑی رہیں۔

بچوں کے بڑے ہونے کے بعد وہ اپنے شوہر کے کاروبار سے منسلک ہوگئیں اور چند ہی برسوں میں اپنا ڈیزائننگ والے کپڑے بنانے والے کامیاب ادارے کی سربراہ کے طور پر سامنے آئیں۔

تین سال بین الاقوامی مارکیٹ میں کام کرنے کے بعد ارم نے کمال گروپ کو ریٹیل کاروبار کی طرف منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس نے 2012ء میں کاروبار کی اس دنیا میں قدم رکھا اور اب ملک کا جانا پہچانا فیشن ریٹیلر ہے۔

کمال گروپ کے پاس کپڑا بننے، پراسیس کرنے، پرنٹ کرنے اور سلائی کرنےکی سہولت موجود ہے۔ مقامی طور پر انہوں نے  ‘کمال لان بائے اعلان’ کی لانچ کے ذریعے آغاز کیا جس کے بعد 2013 میں کمال لان بائے زارا شاہ جہان متعارف کرائی۔

اس کے بعد کمال گروپ نے اپنا ریٹیل کاروبار ’سو کمال‘ لاہور سے شروع کیا اور صرف چند سالوں میں اس کے 30 آؤٹ لیٹس قائم ہوگئے جن میں سے لاہور میں 11، اسلام آباد میں 2، راولپنڈی میں 2، فیصل آباد میں دو اور ملتان، شاہ کوٹ، رحیم یار خان، سرگودھا، سوات، ساہیوال، حیدرآباد، مظفرآباد، اوکاڑہ، مردان، آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں ایک ایک آؤٹ لیٹ شامل ہے۔

شروع میں کمال گروپ کے ریٹیل سیکٹر میں آنے کو دانشمندانہ قدم نہیں سمجھا گیا تھا اور کمپنی نے ماضی میں کئی باراپنا راستہ بدلا جیسا کہ یہ کیمیکل کے کاروبار کی طرف بھی گئی مگر بہر حال یہ اپنے ٹیکسٹائل برآمدات کے کاروبار کی طرف واپس لوٹی اور آج اس شعبے کا ایک بڑا نام بن چکی ہے۔

مالی سال 2019 میں کمال لمیٹڈ 92 ملین کی برآمدات کیساتھ ملک کا 32 واں بڑا ٹیکسٹائل برآمدکنندہ ادارہ تھا، کمال گروپ اب ’سو کمال‘ کو توسیع دینے اور اسے بہتر بنانے پر غور کر رہا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے ہی ارم اس موسم بہار اور گرمیوں میں اپنے حریفوں پر برتری لے جانے اور ’سو کمال‘ کی آن لائن موجودگی کو بڑھانے کے حوالے سے سوچ رہی تھیں مگر کورونا وائرس جیسی مشکل آن پڑی۔

اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے آنے کے بعد ایک ذمہ دار ادارہ ہونے کے ناطے ہمیں وہی اقدامات لینا پڑے  جو ملک و قوم کے لیے بہتر تھے یعنی لاک ڈاؤن میں سٹورز کی بندش لیکن ہم پھر بھی اپنے ملازمین کی حفاظت پر سمجھوتہ کیے بغیر گاہکوں کی خدمت کے لیے متبادل طریقہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے باعث پیدا ہونے والی معاشی صورتحال سے سب سے زیادہ ریٹیل سیکٹر متاثر ہوا ہے مگر اس طرح کے حالات میں پہلی ترجیح اپنے ملازمین کی حفاظت اور ان صحت سے متعلق ہونی چاہیے کیونکہ اس صورتحال کے ختم ہونے کے بعد کاروباروں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے انہی ملازمین کی ضرورت پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ وقت متحد ہونے، ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور حالات کے بہتر ہونے کی اُمید باندھے رکھنے کا ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ باقی کاروباری برادری میں بھی اسی طرح کے احساسات اور جذبات پائے جاتے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ وقت معاشرے کے کمزور طبقے کا خیال رکھنے کا ہے۔

ارم احمد کو کورونا کے معاشی اثرات کا بخوبی ادراک ہے اور وہ جانتی ہے کہ یہ اثرات پاکستان کے ٹیکسٹائل اور ریٹیل سیکٹر پر شدید ہونگے اور اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو چھوٹے کاروبار مکمل بند ہوجائیں گے اور ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔

انکا کہنا تھا کہ کاروباروں کو اپنے طور پر وائرس سے پیدا شدہ حالات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ حکومتی امداد کی بھی ضرورت ہوگی اور جیسا کہ دنیا بھر میں حکومتیں کاروباروں کی مدد کر رہی ہیں ہم بھی اپنی حکومت سے مدد کے طلب گار ہیں۔

’سو کمال‘ کو توسیع دینے کا پلان؟

دنیا کی معیشت کو اس وقت بریک لگ چکی ہے اور ارم کے لیے بھی ’سو کمال‘  کے توسیعی پلان کو عملی جامہ پہنانا موجودہ حالات میں نا ممکن ہوگیا ہے مگر مشکل وقت کے باوجود ’سو کمال ‘ کو لے کر ان کے ارادے ماند نہیں پڑے۔

وہ ملک بھر میں ’سو کمال‘ کے آؤٹ لیٹس کی تعداد اور اسکی آن لائن موجودگی بڑھانا چاہتی ہیں۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’’اگرچہ گاہکوں کا دکان پر آنا اور مصنوعات دیکھنا اچھی چیز ہے مگر آن لائن موجودگی آپکو ان گاہکوں تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے جو گھر بیٹھے چیزیں خریدنا چاہتے ہیں اور آج کی دنیا میں یہ چیز ماضی کی نسبت اہمیت اختیار کرچکی ہے‘‘۔

انکا کہنا تھا کہ بُرے حالات کے باوجود آن لائن سیلز کی وجہ سے انڈسٹری کے کئی برینڈز کسی نہ کسی طرح چل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ریلیف پیکج نہ ملنے پر چین سٹورز ایسوسی ایشن کی یکم مئی سے کاروبار بند کرنے کی دھمکی

ٹیکسٹائل ملرز کا حکومت سے مقامی فروخت پر زیرو ریٹنگ بحال کرنے کا مطالبہ

کورونا کے اثرات برداشت نہ کرپانے کا خدشہ، ٹیکسٹائل انڈسٹری نے حکومت سے مدد مانگ لی

جنوبی پنجاب میں پانچ مزید آؤٹ لیٹس کھولنے سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا یہ ارادہ تبدیل نہیں ہوا اور وہ اسے آن لائن سروسز کی نسبت زیادہ ضروری سمجھتی ہیں مگر فی الحال انکی توجہ آن لائن سروسز فراہم کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے پر ہے۔

آن لائن سروسز پر زیادہ توجہ کی ارم کی سوچ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ اگر لاک ڈاؤن دو ماہ بعد ختم بھی ہوجاتا ہے تب بھی اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ زندگی ماضی کی طرح چل پڑے گی۔ احتیاط اور سماجی دوری طویل عرصے تک ایک ضرورت رہے گی اور ایسے میں کاروباروں کے زندہ رہنے کے لیے آن لائن سروسز بہت بڑا سہارا ہوں گی۔

ارم سے جب پوچھا گیا کہ وہ آن لائن سروسز فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں اور یہ سب کیسے ہوگا تو ان کا جواب تھا کہ ’’ہم نے گزشتہ برسوں میں بہت اچھی ای کامرس ٹیم تیار کرلی ہے‘‘۔

انکا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد خصوصی ترغیبات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ گاہکوں کو آن لائن سروسز کی طرف لانا اور اس سروس کو استعمال میں آسان بنانا ہے جس کے لیے ہم اپنے عملے کو ٹریننگ فراہم کرنے کے ساتھ آسان انٹر فیس بنانے پر بھی کام کر رہے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ اسوقت بیرونی دنیا میں تقریبا ً تمام بڑے برینڈز بند ہیں مزید برآں حکومت نے بھی برآمد پر یا تو پابندی لگا دی یا اسے محدود کردیا ہے۔

 جب ارم سے ریٹیل فیشن مارکیٹ کے مستقبل بارے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ اس بارے میں کوئی بھی حتمی پیشگوئی نہیں کرسکتا کیونکہ چیزیں مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایسی صنعت ہے جس کے لیے چلتے رہنا ضروری ہے، کلیکشنز سیزن کے ساتھ آتے جاتے رہتے ہیں جن کے ساتھ نئے ٹرینڈز بھی دیکھنے کوملتے ہیں مگر یہ اگلے سال ہی غائب ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ ٹرینڈز ایسے ہیں جنھیں ساری دنیا کے برینڈز اپنا رہے ہیں جیسا کہ ڈیجیٹل فیشن کلیکشن، تجرباتی ریٹیل، تھری ڈی پرنٹڈ گارمنٹس، ٹرینڈ کی پیشگوئی کرنے والی آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹس اور بڑھتی ہوئی سماجی اور ماحولیاتی سمجھ بوجھ۔

سو کمال ہی کیوں؟

 ارم کو اپنے برینڈ پر فخر ہے اور بہت سی وجوہات پر وہ سمجھتی ہیں کہ ان کا برینڈ اپنے حریفوں پر سبقت لے جائے گا۔ وہ اسے برآمدات کے ذریعے کمال گروپ کا کماؤ پوت بنانا چاہتی ہیں۔

 اس وقت پوری دنیا کی معیشت سست روی کا شکار ہے اور صورتحال کی جلد بہتری کا بھی کوئی امکان نہیں ایسے میں مقامی ریٹیل کاروبار پر توجہ دینا کوئی برا آئیڈیا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

عالمی وبا کے باعث سودے منسوخ، بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات کو چھ ارب ڈالر کا نقصان

ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کا فیکٹریاں کھلی رکھنے کیلئے خصوصی اجازت دینے کا مطالبہ

کورونا وائرس کے اثرات، آئندہ تین ماہ کیلئے کوئی آرڈرز نہیں، آمدنی متاثر، ٹیکسٹائل مل مالکان حکومتی امداد کے منتظر

ارم سمجھتی ہیں کہ ’سو کمال‘ کو اپنے حریفوں پر ڈیزائن اور تجربے کی بنیاد پر برتری حاصل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ہماری مصنوعات باقی برینڈز سے مختلف ہوتی ہیں اور فوری پہچانی جاتی ہیں۔ ہم پچھلے چند سالوں سے مارکیٹ میں ہیں اورخود کو ٹیکسٹائل ڈیزائنر پارٹنر شپس میں رجحان ساز سمجھتے ہیں‘‘۔

ارم احمد کہتی ہیں کہ بہتر آن لائن سیلز سروس، بہتر قیمت اور خام کپاس سے لیکر پراڈکٹ کی حتمی تیاری تک کنٹرول فراہم کرنے والی عمودی سپلائی چین کی بدولت ہمیں اپنے حریفوں پر برتری حاصل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سو کمال ‘ کا ہر ڈیپارٹمنٹ اپنی استعداد بہتر بنا رہا ہے جس میں آن لائن سسٹم کے تحت نئے گاہک حاصل کرنا، پرانے گاہکوں کو جوڑے رکھنا اور خودکار ریٹیل سسٹم کا قیام شامل ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here