اسلام آباد: کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث سماجی اور معاشرتی رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کے باعث معمولات زندگی بھی تیزی سے بدل رہے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران گھر سے کام کرنا، ٹیلی میڈیسن، لائیو سٹریمنگ، آن لائن خریداری، سفری اور سیاحت کے شعبوں میں نئے رجحانات کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
برطانوی ادارے کی رپورٹ کے مطابق زراعت اور تعمیرات کے شعبوں کے کارکنوں کیلئے تو باہر جانا ضروری ہے کیونکہ ان کے کام کی ہی نوعیت ایسی ہے لیکن ایسے افراد جو ڈیسک پر کام کرتے ہیں اْن کا نیا دفتر اب گھر میں ہی ہے۔
لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں کاروباری اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین سے گھر سے کام کرائیں ان میں ایپل اور مائیکرو سافٹ جیسی بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ گھر سے کام کرنے کا رجحان کورونا وائرس سے پہلے سے موجود ہے لیکن اب یہ معمول کی بات ہو سکتی ہے۔
آسٹریلیا کی بانڈ یونیورسٹی میں اداروں کے کام کے انداز اور طریقہ کار کے ماہر لبی سینڈر نے کہا ہے کہ دفتر سے دور گھر بیٹھ کر کام کرنے کو معمول بنانے میں کورونا وائرس ایک نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔
سال 2019ء میں لندن کی کنسلٹینسی فرم ”انٹرنیشنل ورکنگ گروپ“ کے سروے نتائج کے مطابق دنیا بھر میں 60 فیصد سے زیادہ اداروں کی پالیسی لچکدار ہے لیکن اس تناسب میں مختلف ممالک کے درمیان بہت فرق ہے۔ جرمنی میں یہ شرح 80 فیصد جبکہ جاپان میں صرف 32 فیصد ہے۔
انٹرنیشنل ورک گروپ نے توقع ظاہر کی ہے کہ اداروں میں کام کے لچکدار انتظامات مستقبل میں زیادہ مضبوط ہوں گے اور جاری رہیں گے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس چونکہ گھر سے کام کا نقطہ آغاز ہے لیکن مستقبل میں ایسا ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے ادارے اپنے ملازمین کو دفتر بلانے کی بجائے مکمل طور پر گھروں سے کام کروائیں کیونکہ یہ اب معمول کا معاملہ لگتا ہے۔