زمین کا تنازعہ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے آڑے آنے لگا

ڈیم کی آٹھ کلومیٹر زمین پر خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان کے قبائل میں ملکیت کا تنازعہ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہدایت پر معاملے کے حل کی کوشش کی گئی تو رائیلٹی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا

1391

اسلام آباد: ملک کی آبی و بجلی کی ضرورت کے حوالے سے اہم میگا پراجیکٹ دیا میربھاشا ڈیم زمین کے تنازعے کی لپیٹ میں آنے لگا۔

یہ تنازع خیبر پختونخواہ اور گلگت  بلتستان کے قبائل کے درمیان ہے اور فریقین نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ منصوبے پر تعمیراتی کام شروع کرنے سے پہلے اس تنازعے کو حل کیا جائے۔

وزرات منصوبہ بندی و ترقی میں منصوبے پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ہونے والے اجلاس میں یہ نکتہ اُٹھایا گیا کہ منصوبے کی زمین کے حوالے سے دونوں صوبوں کے قبائل کے درمیان تنازع کے علاوہ کچھ دیگر مسائل بھی ہیں جو پراجیکٹ پر تعمیراتی کام کے آغاز سے پہلے حل کرنا ضروری ہیں۔

ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والے اس اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر اسد عمر نے کی اور اس میں گلگت بلتستان اور خیبر پختون خواہ کے وزرائے اعلی بھی شریک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے:

دیا میر بھاشا ڈیم کا ٹھیکہ رواں ماہ دیا جائے گا، واپڈا

حکومت نے زیرزمین پانی کے استعمال پر نیا ٹیکس لگا دیا

وقت کے ساتھ نجی شعبے کو بھی سی پیک منصوبوں میں شامل کیا جائے گا: اسد عمر

واضح رہے کہ دیا مر بھاشا ڈیم کی 8 کلومیٹر زمین پر گلگت بتلستان اور خیبر پختونخواہ کے دو قبائل کا دعوٰی ہے اور اس کی ملکیت کے لیے ان میں کئی بار ٹکراؤ بھی ہوچکا ہے۔

وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دونوں صوبوں کے وزرائے اعلی نے معاملے پر متضاد مؤقف اختیار کیے۔

گلگلت بلتستان کے وزیر اعلٰی کا کہنا تھا کہ معاملے کا حل احتیاط کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں تمام فریقین کے ساتھ مشاورت ضروری ہے۔ ماضی میں معاملے کے حل کے لیے بنائے گئے ایک رکنی کمیشن کے نتائج کو قبائل نے مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے تجویز دی کہ تنازع کے احسن حل کے لیے دونوں قبائل کا گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جائے۔ ’’زمین اور دوسرے تنازعات کا حل نکالتے ہوئے وفاقی حکومت کو وسیع تر ملکی مفاد کی خاطر گلگت بلتستان کے عوام کی قربانیوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے‘‘

معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ وہ رمضان  کے بعد اس مسئلے پر ایک اجلاس بلائیں گے، انھوں نے دونوں صوبوں کے وزرائے اعلی اور متعلقہ حکام کو اس اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی۔

دیا میر بھاشا ڈیم کی گاندلو نالا کے علاقے میں واقع وہ 8 کلومیٹر زمین جس پر ڈیم کا پلانٹ لگایا جانا ہے، صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان کے ہربان قبیلے اور گلگت بلتستان کے علاقے دیا میر کے تھور قبیلے کے درمیان طویل عرصے سے متنازعہ ہے اور دونوں قبائل اس کی ملکیت کے دعوے کو لے کر برسوں سے متصادم چلے آرہے ہیں۔

فروری 2014 میں اس تنازعے کے باعث دونوں قبائل کی لڑائی میں  سات افراد جان سے گئے تھے۔

اس سے پہلے کے پی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے اس علاقے کو اپنے صوبے کا حصہ قرار دے دیا تھا جس پر گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت نے معاملے کی چھان بین کےلیے صوبے کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

اس کمیٹی نے دیا میر اور کوہستان کے عمائدین کے درمیان 1947 میں طے پانے والا معاہدہ ڈھونڈ نکالا جس کے تحت یہ علاقہ دیامیر کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے منصوبے کے لیے فنڈز اکھٹے کرنے کے دنوں میں اس تنازعے کا نوٹس لیا تھا اور تحریک انصاف کی حکومت کو اسے عدالت سے باہر حل کرنے کی تاکید کی تھی مگر بعد ازاں آئینی پابندیوں  کے باعث منصوبے کی رائلیٹی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا تھا۔

ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ڈیم کی کچھ ٹربائنیں خیبر پختونخواہ اور کچھ گلگت بلتستان میں لگائی جائیں گی۔

وزارت منصوبہ بندی میں منصوبے پر پیش رفت کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں اسد عمر کو منصوبے کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیراتی کام سے متعلق معاہدوں پر بریفنگ دی گئی جنھوں نے متعلقہ حکام کو کام وقت پر مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

واپڈا حکام نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ منصوبہ چھ مختلف جزئیات پر مشتمل ہے  اور ہر فیز کے لیے فریقین سے مشاورت کے بعد الگ الگ ٹھیکے دیے جائیں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here