کورونا کے باعث رواں برس دنیا میں ترسیلات زر 100 ارب ڈالر کم ہوجائیں گی : ورلڈ بنک

معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے سے ترسیلات زر 20 فیصد کم ہوکر 554 ارب ڈالر سے 445 ارب ڈالر کی سطح پر آجائینگی، تارکین وطن کے لیے موجودہ بحران طویل اور گہرے اثرات مرتب کرنے والا ہوگا

688

واشنگٹن: کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے دنیا بھر میں کہیں مکمل تو کہیں جزوی لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہیں جس کے باعث عالمی بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی ترسیلات زر میں 100 ارب ڈالر کمی ہو جائے گی۔ 

تارکین وطن کی جانب سے بھیجے جانے والی رقوم ترقی پذیر ممالک کے لیے سرمائے کا بڑا ذریعہ ہیں جس میں کمی کا مطلب ہے کہ کورونا کے باعث پہلے ہی مالی بحران کے شکار ان ممالک کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔

کورونا لاک ڈاؤن کے باعث معیشتیں مشکل کا شکار ہیں اور اسکی وجہ سے کم اور درمیانے درجے کی آمدنی والے ممالک کی ترسیلات زر 20 فیصد کم ہوجائیں گی۔

گزشتہ برس ان ممالک کے ترسیلات زر 554 ارب ڈالر تھیں جو اس برس کم ہوکر 445 ارب ڈالر ہوجائیں گی۔

ترسیلات زر میں یہ کمی تاریخی ہوگی اور اس کا سب سے زیادہ شکار صومالیہ، ہیٹی، جنوبی سوڈٓان جیسے چھوٹے جزیرہ نما ممالک ہوں گے جہاں ترسیلات زر کا جی ڈی پی میں حصہ ایک تہائی ہے۔

پاکستان، بھارت، مصر، فلپائن اور نائجیریا کے لیے بھی ترسیلات زر سرمائے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور انہیں بھی اس میں بڑی کمی کا سامنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے:

کورونا وائرس: ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا آئی ڈی اے رکن ممالک سے قرض واپسی موخر کرنے پراتفاق

کورونا وائرس: سعودی عرب میں نجی کمپنیوں کو ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی اجازت مل گئی

اسٹیٹ بنک نے ترسیلات زر کی مارکیٹنگ اسکیم میں تبدیلی کردی

ورلڈ بنک کے ممتاز معاشی ماہر دلیپ راٹھا کا اس حوالے سے برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ترسیلات میں 20 فیصد کمی ان پر انحصار کرنے والے ممالک کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس سے تارکین وطن اور انکے خاندانوں پر بہت برا اثر پڑے گا۔

ورلڈ بنک کے اندازے کے مطابق 2019 میں 700 ملین تارکین وطن اپنے خاندانوں کو مالی سہارا فراہم کر رہے تھے مگر کسی بھی بحران میں جن لوگوں کی نوکریاں سب سے پہلے ختم ہوتی ہیں وہ یہی تارکین وطن ہی ہوتے ہیں۔

عالمی بنک کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ حکومتوں نے بحران کی اس گھڑی میں کاروباروں کو سہارا دینے اور انھیں ملازمین کی نوکریاں برقرار رکھنے کے لیے مدد فراہم کی ہے مگر تاحال زیادہ تر حکومتوں کی طرف سے تارکین وطن  کے روزگار کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔

سعودی عرب اور قطر سمیت خلیجی ممالک کی جانب سے کورونا بحران کی وجہ سے تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنے کی اطلاعات ہیں جس کے بارے میں سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس نے کسی بھی غیر ملکی ملازم کو زبردستی ملک سے نہیں نکالا البتہ وہ ان ممالک کی حکومتوں کیساتھ رابطے میں ہے جن کے تارکین وطن اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں۔

تاہم قطر کا کہنا تھا کہ اس نے جن افراد کو ڈی پورٹ کیا ہے وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔

ادھر لاک ڈاؤن کے باعث پیسے بھجوانے کےمراکز کی بندش کے باعث تارکین وطن کو اپنے خاندانوں کو پیسے بھجوانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ زیادہ تر غریب تارکین وطن کے تو بنک اکاؤنٹس بھی نہیں ہیں اور وہ آن لائن بھی پیسے نہیں بھجوا سکتے۔

عالمی بنک نے خبردار کیا ہے کہ تارکین وطن کے لیے موجودہ معاشی بحران ، طویل اور گہرے اثرات مرتب کرنے والا ہوگا۔

معاشی ماہر دیلیپ راٹھا کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں سب سےزیادہ تارکین وطن کی نوکریاں ختم ہونگی مگر معیشتوں کی بحالی کے بعد ان کی نوکریاں پھر سے پیدا ہونگی لیکن تب غیر ملکیوں کو طویل مدت کے لیے ملازمت فراہم کرنے کے حوالے سے کچھ پابندیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔

ترسیلات زر میں کمی کا سب سے زیادہ سامنا یورپ اور وسطی ایشیا کو ہوگا جہاں یہ 28 فیصد کم ہوجائینگی۔ مزید برآں صحرائے سہارا کے افریقہ میں ان میں 23.1 فیصد کمی دیکھنے میں آئے گی ۔

خلیجی ممالک ترسیلات زر کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ہیں مگر تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب اس خطے میں معاشی سرگرمیاں چلانے والے ریاستی اخراجات میں کمی آئے گی اور اس سببب ترسیلات زر بھی کم ہونگی ۔

ورلڈ بنک کے مطابق ترسیلات زر میں کمی کے باوجود یہ سرمائے کا اہم ذریعہ رہیں گی کیونکہ معاشی سست روی کے باعث اس برس براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 35 فیصد کمی آئے گی۔

مزید برآں عالمی بنک کا کہنا ہے کہ  2021 میں ترسیلات زر میں کچھ بہتری آئے گی اور کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے یہ 5.6 فیصد بڑھ کر 470 ارب ڈالر ہوجائینگی ۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here