لاہور: ملک میں کورونا وائرس پھیلنے اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ایک سے دوسرے شہروں میں نقل مکانی کرنے والے 30 لاکھ 78 ہزار مزدوروں کے بےروز گار ہونے کا خدشہ ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے ماہر معاشیات ڈاکٹر ناصر اقبال نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ موجودہ صورت حال ان لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے جو روزی کمانے کے لیے اپنے گھروں سے دور ہیں۔
‘لیبر فورس سروے 2017-2018’ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اندرونِ ملک روزگار کے لیے نقل مکانی کرنے والے ہر لحاظ سے نظرانداز کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان بھر میں گائوں سے شہروں کی جانب یا پھر ایک سے دوسرے شہر ہجرت کرکے آنے والے مزدوروں کی تعداد 80 لاکھ 50 ہزار ہے جن میں سے 45 فیصد مزدور دیہاڑی دار، کنسٹرکشن ورکرز، گھریلو معاون یا فیکٹری ورکرز جیسیے چھوٹے موٹے روزگار سے وابستہ ہوتے ہیں۔
پی آئی ڈے ای کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 65 فیصد سے زیادہ یہ ورکرز صرف پاکستان کے 15 اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، 10 لاکھ سے زیادہ مزدور صرف کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور اسلام آباد میں موجود ہیں جہاں کاروباری سرگرمیاں بند رہنے سے مالکان اپنے ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے پر مجبور ہوں گے اور کچھ نے ایسا کرنا شروع بھی کردیا ہے۔
رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ نوکریوں سے نکالے جانے والے ورکرز کُل لیبر فورس کا 45 فیصد ہیں، اس طرح ان مزدوروں کی تعداد تقریباََ 30 لاکھ 78 ہزار بنتی ہے، ان مزدوروں کو بغیر کسی دوسرے ذریعہ معاش کے نکالا جائے گا لیکن ہر شعبے میں یہ صورتحال نہیں ہو گی۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ مزدوروں کی اکثریت مینوفیکچرنگ، کنسٹرکشن، ٹرانسپورٹ، کمیونیکیشن اور پرچون کے شعبوں میں کام کر رہی ہے، لہٰذا ان شعبوں سے وابستہ ملازمین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ لاک ڈائون کے دوران مزدوروں کو احساس پروگرام کے تحت 12 ہزار امداد دی جا رہی ہے لیکن انہیں اپنے علاقوں میں رجسٹریشن کرانے کا کہا گیا ہے۔
حکومت کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے، اس فیصلے سے مزدوروں کی غیر ضروری نقل و حمل میں اضافہ ہو گا اور کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن پر عمل نہیں ہو سکے گا۔
پاکستان ٹوڈے کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ناصر اقبال نے کہا کہ “ہماری توجہ ہے کہ بے روزگار لوگوں کو ایک دفع ضروری اشیا خریدنے کے لیے یہ رقم ملے اور صرف حکومت ہی یہ ادا کر سکتی ہے کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر نجی شعبے ایسے ادا نہیں کرسکتے۔ نجی شعبہ صرف معمولی قرضے ہی دے سکتا ہے جیسے اخوت کر رہا ہے۔ ہم مائیکروفنانس سکیموں پر کام کررہے ہیں”۔