ٹیکس دہندگان صنعتوں کا حکومت سے غیرقانونی کاروباروں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا مطالبہ

780

اسلام آباد: ٹیکس ادا کرنے والی متعدد انڈسٹریز نے حکومت کی کورونا وائرس ریلیف پیکیج میں قابلِ قدر امداد کی ہے اور ان انڈسٹریز نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک میں متوازی معیشت کی فضا قائم کرنے کے لیے اسمگلنگ اور غیرقانونی کاروباروں کے خلاف گھیرا تنگ کریں۔ 

وزارتِ صنعت و پیداوار میں موجود ذرائع نے کہا ہے کہ رجسٹرڈ اور ٹیکس ادا کرنے والی بڑی فورمز نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک میں غیرقانونی کاروبار چلانے والوں کے خلاف عملی اقدامات کرے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک طرف بہت سی آرگنائزیشنز نے وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ میں آگے بڑھ کر عطیات دیے ہیں لیکن دوسری طرف ٹیکس ادا نہ کرنے والی غیرقانونی کاروباری کمپنیاں خوب پیسہ بنارہی ہیں، جس پر بہت سی کمپنیوں نے غیرقانانی کاروباروں سے متعلق حکومت کو آگاہ کردیا ہے۔

ٹوبیکو انڈسٹری نے  اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ “اگر ہم زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں کو دیکھیں تو پاکستان کی قانونی ٹوبیکو انڈسٹری یقینی طور پر سب سے آگے ہے۔ بدقسمتی سے صرف 60 فیصد انڈسٹری ہی ٹیکس ادا کر رہی ہے جبکہ باقی کی 40 فیصد انڈسٹری ٹیکس چوری کر رہی ہے۔ یہ 40 فیصد میں مقامی پیداوار کرنے والی کمپیناں ہیں جو کم پیداوار اور انوائس کم ظاہر کروا کر ٹیکس چوری کرتی ہیں لیکن سگریٹس کم قیمت پر فروخت کرتی ہیں جو ملکی قانون کی ایک اور خلاف ورزی ہے۔ ٹیکس چوری سے مقامی معیشت کو 40 سے 45 ارب روپے سالانہ نقصان ہو رہا ہے”۔

ایک دوسرے بیان میں ٹائر انڈسٹری نے حکومت کو بتایا کہ غیرقانونی تجارت سے ملکی خزانے کو سالانہ 30 ارب روپے نقصان ہو رہا ہے۔

مقامی ٹائرمینوفیکچرر کے اعدادوشمار کے مطابق 2017-2018 میں غیرقانونی طور پر ٹائر سمگل کرنے سے قومی خزانے کو 30 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیے:

کورونا وائرس کے باعث پاکستانی برآمدات میں تین ارب ڈالر کمی آئے گی، رزاق داؤد

پاکستان سٹیٹ آئل کو نادہندگی کا خطرہ، حکومت سے 100 ارب کا مطالبہ

تمباکو کے پودے سے کورونا وائرس کی ویکسین بنانے کے تجربات جاری

اسی طرح پیٹرولیم انڈسٹری میں ایرانی تیل کی سمگلنگ سے ہر سال قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، یہ سمگلنگ مبینہ طور پر بلوچستان میں پاک، ایران بارڈر پر ہوتی ہے اور اس تیل کی گردش سے قانونی طور پر تیل و گیس کے شعبے کی کو نقصان ہوتا ہے۔

سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے دستاویزات کے مطابق پاکستان سٹیٹ آئل کو بلوچستان میں 159 پیٹرول پمپس بند کرنا پڑے جہاں آزادنہ طور پر ایرانی تیل فیول سٹیشنز پر 10 روپے سے 20 روپے فی لیٹر سستا دستیاب ہے۔

غیرقانونی کاروباروں پر قابو پانے کی بجائے حکومتیں پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والی انڈسٹریز پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے بوجھ ڈالتی ہیں۔ قانونی کاروباروں پر ٹیکسوں میں اضافے سے معیشت کو مزید خطرہ لاحق ہے کیونکہ انڈسٹریز کو اور بھی نقصان اٹھانا پڑے گاجو قومی خزانے کے لیے مزید بنے گا۔

بحران کے وقت میں اگر حکومت ملک میں ٹریک اور ٹریس سسٹم کے ذریعے سخت اقدامات کر کے غیرقانونی تجارت کو روکتی ہے تو اس سے قانونی کاروباروں پر مناسب ٹیکس لگانے سے انہیں زیادہ سے زیادہ پیداوار کی حوصلہ افزائی کا موقع ملے گا اور معیشت بھی بہتر ہو سکتی ہے۔

اگر غیرقانونی تجارت پر قابو پا لیا جاتا ہے تو قومی خزانے میں 130 ارب روپے سے زیادہ کا فائدہ ہو گا جو حکومت حالیہ بحران سے نمٹنے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here