گورنر سٹیٹ بینک کی ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان کے ڈائریکٹرز سے ویڈیو کانفرنس، کارکنوں کی تنخواہوں کی ری فنانس سکیم پر تبادلہ خیال 

نئی ری فنانس اسکیم کے تحت موبائل والٹ کے ذریعے اجرت کی ادائیگی کی حکمت عملی وضع کی جائے،صوبوں میں برابری کی بنیاد پر قرض دیے جائیں، شرح سود دو فیصد کی جائے:  ایمپلائز فیڈریشن پاکستان کی تجویز

1013

کراچی: سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر باقر رضا نے کہا ہے کہ مرکزی بینک تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ باہمی مشاورت سے کام کررہا ہے اور اس مشکل وقت میں صنعتوں کوعملی طور پر مدد فراہم کرنے باالخصوص افرادی قوت کی مالی استطاعت برقرار رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کررہاہے۔

اسٹیٹ بینک کا مستقل طور پر بینکوں سے بھی رابطہ رہتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بناجاسکے کہ مرکزی بینک نے جو اقدامات کیے ہیں ان کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے برق رفتاری سے عمل درآمد ممکن بنایا جاسکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کارکنوں کو بے روزگاری سے بچانے کے لیے متعارف کروائی گئی ”ری فنانس اسکیم فار پیمنٹ آف ویجز اینڈ سیلریز ٹو دی ورکرز اینڈ ایمپلائز آف بزنس کنسرنس“ پر ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) کے ڈائریکٹرزکے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے 75 منٹ دورانیے پر مشتمل وڈیو کانفرنس میں کیا۔

اس موقع پر ڈپٹی گورنر جمیل احمد اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز سید ثمر حسنین اور ڈاکٹر عنایت حسین نے ان کی معاونت کی جبکہ ای ایف پی کے صدر مجید عزیز، بورڈ آ ف ڈائریکٹرزکے علاوہ نائب صدر ذکی خان حمد خان، چیئرمین ای ایف پی اکنامک کونسل اسماعیل ستار،چیف کے پی کے حاجی محمد جاوید، کوچیف پنجاب ملک طاہر جاوید، چیئرمین ویب کوپ اینڈ اسکل ڈیویلپمنٹ کونسل احسان اللہ خان، افتخار شیرازی،یوسف مرزا، اطہر اقبال، مہناز کلوڈی، سید نذر علی،ڈائریکٹر ای ایف پی ای سی محمود ارشد اور سیکریٹری جنرل فصیح الکریم صدیقی بھی اجلاس میں شریک تھے۔

گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر رضا نے سکیم کے غلط استعمال سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ رقم براہ راست تنخواداروں اور اجرت پر کام کرنے والوں کے اکاؤنٹ میں منتقل نہیں کی جائے گی بلکہ آجروں کے ذریعے ادائیگی کی جائے گی۔ آجرقرض دینے والے بینک کو مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں اور تنخواہوں کی ادائیگی کی رقم 3 ماہ کے لیے 200 ملین روپے تک ہے ان کو ترجیح دی جائے گی۔

انہوں نے کہا فعال ٹیکس دہندگان کو ایک فیصد کی رعایت ملے گی۔ اسکیم کی تشکیل کے دوران ایس ایم ایز کے خدشات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی کہ سٹیٹ بینک آجروں اور مالیاتی اداروں سے مستقل مشاورت کے بعد ری فنانس سکیم میں تبدیلیاں لانے پر رضامند ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

کورونا سے نبرد آزما ہسپتالوں کو قرضوں کیلئے سٹیٹ بینک کی مزید لچک

سٹیٹ بینک نے قرض ادائیگی ایک سال کیلئے مؤخر کرنے کی منظوری دے دی

ملازمین کو نوکریوں سے نہ نکالیں، سٹیٹ بنک نے کاروبار مالکان کے لیے نئی قرض سکیم متعارف کروا دی

گورنر سٹیٹ بینک نے یہ بھی بتایا کہ قرض دہندگان کو اصل رقم پرپہلے ہی ایک سال کی چھوٹ دی دے گئی ہے جو کہ قرض دہندگان کے لیے ایک بڑا ریلیف ہے اور اب تک 70ہزار سے زائد لوگوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے نیز یہ رقم 5 ارب سے تجاوز کرگئی ہے جو یقیناََ ایک بہت بڑا ریلیف ہے کیونکہ سٹیٹ بینک کو قرض حاصل کرنے والوں کی مشکلات کا مکمل ادراک ہے۔

قبل ازیں ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان(ای ایف پی) کے صدر مجید عزیز نے مرکزی بینک کی ترجیحات کو سراہتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک کو یقین دہانی کروائی کہ ای ایف پی مذکورہ اسکیم کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے آجروں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

اس موقع پر ای ایف پی کے ڈائریکٹرز نے تجاویز دیتے ہوئے مختلف سوالات سامنے رکھے کہ ان قرضوں کی ضمانت کیا ہوگی باالخصوص اگر آجر مزید ضمانت دینے سے قاصر ہو۔

تھرڈ پارٹی جیسے حکومت کے ذریعے قرض دہندگان کی ضمانت کی صورت میں آجروں کے لیے کیا طریقہ کار ہوگا۔ آجر اگر روایتی کمرشل بینکوں سے قرض نہیں لیتے اور اسلامک بینکاری اداروں سے رجوع کرتے ہیں تو ان آجروں کے لیے کیا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

کیا یہ سہولت ان قرض دہندگان کے لیے بھی دستیاب ہوگی جو سی آئی بی کی فہرست میں ہیں؟ کیا اس اسکیم کے تحت قرضوں کی منظوی کے دوران بینکوں نے اضافی دستاویز طلب کرنے کی اپنے طرز عمل کو تبدیل کیا ہے؟

 ای ایف پی کے ڈدائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ اگر آجر کارکنوں کو نقد اجرت ادا کرتے ہیں تو شفافیت کو کیسے برقرار رکھا جائے گا؟

کیا سٹیٹ بینک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ بینکوں اور آجروں کے درمیان معاہدہ افشا نہیں ہوگا اور نہ ہی تھرڈ پارٹی یا حکومتی اداروں کے ساتھ اس کا تبادلہ کیا جائے گا تاکہ رازداری برقرار رکھی جاسکے نیز سٹیٹ بینک اس امر کو یقینی بنائے گا کہ اس اسکیم کے تحت تمام صوبوں میں برابری کی بنیاد پر قرضوں کی تقسیم ممکن بنائی جائے گی؟

انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ اس اسکیم کا ایکسپورٹ ری فنانس اسکیم پر کیا  اثرات مرتب ہوں گے جو برآمدکنندگان ای آر ایف سہولت سے تسلسل کے ساتھ مستفید ہورہے ہیں اور انہیں رقوم کی ادائیگی، ایڈجسٹمنٹ کی 180دنوں کی بیعانہ کی سہولت دستیاب ہوگی؟

کیا اس اسکیم کے تحت بروکریج ہاؤسز قرضے حاصل کرسکیں گی اوران صنعتوں کو ترجیح دی جائے گی جو ملٹی نیشنل اور بڑی نہیں ہیں؟

کیا سٹیٹ بینک برآمدی صنعتوں پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے ایف بی آر سے برآمدکنندگان کو ریفنڈ کی تیزی سے ادائیگی کے لیے بات کرے گا۔

ای ایف پی کے ڈائریکٹرز نے یہ تجویزبھی دی کہ کیا آجر کارکنوں کو موبائل والیٹ کے ذریعے اجرت کی ادائیگی کے لیے قرض دینے والے بینکوں کے ساتھ معاہدہ کرسکتے ہیں اگر آجر بینکوں کو کارکنوں کے شناختی کارڈ نمبر و دیگر معلومات فراہم کرتا ہے کیونکہ جن کارکنوں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں وہ موبائل والیٹ کے ذریعے آسانی سے پیسے لے سکتے ہیں۔

کیا ایس ایم ایز کے لیے قرضوں کی فراہمی کا کوئی خصوصی طریقہ کار وضع کیے جانے کی توقع ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے فعال ٹیکس دہندگان کے لیے شرح سود 2 فیصد سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

اس موقع پر ڈپٹی گورنر جمیل احمد اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز سید ثمر حسنین اور ڈاکٹر عنایت حسین نے تجاویز کے جواب میں کہا کہ اس اسکیم کے تحت آجر روایتی اور اسلامک بینکوں دونوں سے قرض حاصل کرسکتا ہے کیونکہ دونوں بینکوں کے لیے پالیسی موجود ہے۔

ضمانت کی شرط بینک سے بینک اور قرض لینے والے کے ساتھ ان کے تعلقات پر منحصر ہے۔ بینکوں کو میرٹ پر ہر کیس کا ازخود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ سٹیٹ بینک قرض لینے والوں کے بہتر ترین مفاد میں قرض کی لاگت کو کم سے کم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو بینکوں کی حد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ سٹیٹ بینک نے قرض کی ادائیگی ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ قرض دہندگان کے لیے ایک بڑی مراعات ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسکیم کے تحت مالیاتی شعبے کے اداروں کو خاص طور پر خارج کردیا گیا ہے کیونکہ اس بات پر زیادہ زور ہے کہ محنت کش صنعتوں کو قرضے فراہم کیے جائیں۔

سٹیٹ بینک کے اعلیٰ افسران نے ای ایف پی کی تجویز کو سراہتے ہوئے کہاکہ مرکزی بینک قرض دہندگان کی معلومات ظاہر نہ کرنے کے معاملے پر بینکوں سے تبادلہ خیال کرے گا۔

انہوں نے یقین دلایا کہ یہ نئی اسکیم فوری طور پر نافذ العمل ہے اور بینکوں کو حد بھی فراہم کی جارہی ہے۔ ای ایف پی کریڈٹ گارنٹی سے متعلق تجویز پر انہوں نے کہاکہ بینکوں کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here