اسلام آباد: صوبائی حکومتیں رواں مالی سال میں ہونے والے گندم بحران کے بارے میں وفاقی حکومت کو رپورٹ جمع کرانے میں ناکام رہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ تمام صوبے عام طور پر گندم کے نقصانات کی رپورٹ وزارتِ نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ (این ایف ایس سی) کو ہر سال 31 مارچ کو جمع کراتے ہیں تاہم اس سال ابھی تک کسی بھی صوبائی حکومت کی طرف سے رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت گندم پیداوار کا ہدف اخذ نہیں کر پائی جس کی وجہ صوبوں کی جانب سے گندم کے اعدادوشمار کی عدم فراہمی ہے۔
مالی سال 2020 میں گندم کی فصل سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں کچھ مقامات پر ٹڈی دل کے حملوں کی زد میں برقرار رہے، اس کے علاوہ پنجاب میں بھی گزشتہ مہینوں میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے گندم کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بھی این ایف ایس سی کو اعدادوشمار نہیں دیے گئے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے فصلوں کو محفوظ کرنے کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کی تھی اور چین سے اس معاملے میں مدد بھی طلب کی تھی۔
انہوں نے کہا مذکورہ وزارت نے آئندہ سوموار کو گندم کی فصل کے نقصانات کے تعین کے لیے ایک اجلاس بلایا ہے اور صوبوں کو پیداوار کے علاوہ کاشت کی رپورٹ بھی شئیر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ذرائع نے کہا کہ ملک میں گندم کی کٹائی شروع ہو گئی ہے اور پنجاب نے گزشتہ تین دنوں سے گندم کی خریداری کا اعلان بھی کیا ہے۔
خدشہ ظاہرکیا گیا ہے کہ پنجاب گندم کی خریداری کا ہدف مکمل نہیں کر پائے گا۔ وفاقی حکومت نے 82 ملین میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا ہدف رکھا ہے جس میں پنجاب کا حصہ 45 ملین میٹرک ٹن، سندھ کا 14 ملین میٹرک ٹن، بلوچستان کا ایک ملین میٹرک ٹن اور پاسکو کو 18 ملین میٹرک ٹن کا شئیر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل سندھ حکومت اور پاسکو اُن کسانوں سے گندم کی خریداری کررہی تھی جنہوں نے اپنی گندم کی کٹائی کر لی تھی لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے گندم کی خریداری کا عمل روک دیا گیا۔