کورونا، معیشت سنبھالنے کے لیے حکومت قرضے ری شیڈول کروانے کی کوشش کرے: معاشی ماہرین

بدترین کساد بازاری ٹالنے اور بیلنس آف پیمنٹ اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ سنبھالنے کے لیے قرضے تین سال کے لیے ری شیڈول کروانے کی کوشش کی جائے، لاک ڈاون تین ماہ اور چلا تو شرح ترقی منفی 2.2 فیصد ہوجائے گی اور ایک کروڑ نوکریاں داؤ پر ہونگی: معاشی ماہرین

758

لاہور: معاشی ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قرض خواہوں کو قرضوں کو ری شیڈول کرنے پر رضامند کرے تاکہ ملک کو کساد بازاری سے بچایا جاسکے جس کی ورلڈ بنک نے اپنی رپورٹ میں پیشگوئی کی ہے۔

عالمی بنک نے پاکستان کی قومی ترقی کے 2.2 سے 1.3 فیصد پر آنے کی پیشگوئی کی ہے اور کہا کہ یہ چیز انفرادی آمدن کو بھی نقصان پہنچائے گی۔

ممتاز صنعت کار ولید سہگل نے ملک کے معاشی مستقبل بارے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ حکومت کے پاس آپشنز محدود ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ نہ تو ہم مغرب کی طرح مکمل لاک ڈاؤن کے متحمل ہوسکتے ہیں اور نہ ہم وائرس کا تیزی سے بڑھنا سنبھال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قوم کے لیے اس وقت آگے کنواں پیچھے کھائی کی سی صورتحال ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو بیرونی دنیا سے مالی مدد اور رعایتوں کے لیے کوشش کرنا چاہیے کیونکہ کورونا وائرس کے ترقی پذیر ممالک پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔

یہ بھی پڑھیے:

تحریک انصاف کا دور، قرضے 9.2 کھرب اضافے سے 33.4 کھرب ہوگئے

عالمی تجارت میں 32 فیصد کمی متوقع، ترقی پذیر معیشتوں سے 100 ارب ڈالر کا انخلاء

کورونا وائرس: ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا آئی ڈی اے رکن ممالک سے قرض واپسی موخر کرنے پراتفاق

پرافٹ اردو سے بات چیت میں ممتاز معاشی ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کورونا سے پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہوچکی تھی اور 2018 میں جو شرح ترقی  5.2 فیصد تھی وہ 2019 میں 2.2 فیصد پر آگئی تھی۔

انکا کہنا تھا کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کو 30 ارب کا نقصان ہوچکا ہے اور تقریباً بیس لاکھ لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت اور نجی شعبے نے فوری طور پر غیر معمولی اقدامات نہ اُٹھائے اور لاک ڈاؤن مزید تین مہینے رہا تو پاکستان کی شرح ترقی منفی 2.2 ہوجائے گی ایک کروڑ نوکریاں داؤ پر ہونگی۔

انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ معاشی بحران امن و امان کے مسئلے میں تبدیل ہو سکتا ہے جسے سے سیاسی بحران اور مہنگائی میں خوفناک اضافہ ہوگا۔

انکا کہنا تھا کہ حکومت کو چھوٹی اور بڑی صنعتوں کو پیداواری لاگت میں کمی میں سہولت دینی چاہیے اور سیلز ٹیکس میں کمی سمیت تعمیراتی شعبے کو دی جانے والی مراعات تمام شعبوں تک پھیلانےکی ضرورت ہے۔

انکا کہنا تھا ملازمتیں بڑھانے کے لیے حکومت کو میگا پراجیکٹس کا اعلان کرنا چاہیے اور شرح سود کو 7 فیصد تک لانے سمیت، چھوٹےکاروباروں کے یوٹیلٹی بل معاف کرنے جبکہ بڑھے کاروباروں کے بل تین ماہ کے لیے موخر کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر اسلم کا مزید کہنا تھا کہ عالمی قرض خواہوں سے  پاکستان کے قرضوں کو  تین سال کے لیے ری شیڈول کرنے کی درخواست  کی ضرورت ہے تاکہ بیلنس آف پیمنٹ اور کرنٹ کاؤنٹ خسارے کو سنبھالا جا سکے۔

تاہم معاشی ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا پرافٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ عالمی بنک یا کوئی دوسرا عالمی مالیاتی ادارہ کوئی بھی پیشگوئی بلکل درست انداز میں  نہیں کرسکتا کہ موجوہ بحران ایشیا یا کسی دوسرے خطے پر کیسے اثر انداز ہوگا۔

انکا کہنا تھا کہ ان اداروں کی پیشگوئیاں محض اندازے ہوتے ہیں اور انہیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

 انہوں نے کہا کہ لاک ڈٓاؤن سے پہلے بھی ہماری جی ڈی پی گروتھ ڈھائی سے تین فیصد تھی اور اگر یہ 2 فیصد سے نیچے جاتی ہے تو ہمارے لیے بد ترین کساد بازاری سے بچنا نا ممکن ہوگا۔

انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے ملکی معاشی ماہرین کی مدد لی جائے۔

انکا کہنا تھا کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کو ورلڈ بنک کی رپورٹ کا تنقیدی جائزہ لینے کا ٹاسک دیا جائے اور ادارے کو ہدایت کی جائے کہ وہ بحران کے پیش نظر اپنے خود کے معاشی اندازے دے اور بحران کا حل بھی بتائے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here