اسلام آباد: پاور پلانٹس کے حوالے سے انکوائری کرنے والی ایک کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ بجلی گھروں سے ناصرف 100 ارب روپے ریکور کیے جائیں بلکہ بجلی پیدا کرنے کا کارخانہ لگانے کے حوالے سے کیے گئے معاہدوں کا بھی ازسرنو جائزہ لیا جائے۔
ذرائع کے مطابق نو رکنی انکوائری کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کو توانائی کے شعبے میں 100 ارب سے زائد کے خسارے کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ جمع کرائی ہے۔ 278 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی جانب سے پاور پلانٹس لگانے کی لاگت، گورنمنٹ ٹو گورنمنت ایگریمنٹس، پاور ٹیرف، ایندھن میں کرپشن، میرٹ کی خلاف وزری، طے شدہ منافع اور بجلی کی فروخت کے طریقہ کار کی خلاف ورزی سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جانب سے وزیراعظم کو ‘کمیٹی فار پاور سیکٹر آڈٹ’، سرکلر آڈٹ ریزرویشن اور فیوچر روڈ میپ’ کے نام سے رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ انکوائری کمیٹی نے 60 سے زائد پاور پلانٹس کے اخراجات اور بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے دستاویزات کا جائزہ لیا اور تفتیشی رپورٹ کسی بھی طرح کے اختلاف رائے کے بغیر جمع کروائی، رپورٹ پر کمیٹی کے تمام ارکان کے دستخط موجود ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے پاور پلانٹس کے معاملات کی تفتیش کے لیے 7 اگست 2019 کو سابق چئیرمین سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی سربراہی میں 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کے نمائندگان شامل تھے۔
ذرائع نے انکوائری رپورٹ کے بارے میں بتایا ہے کہ آئی پی پیز کے مالکان نے 1994 کے بعد نیپرا سے حکومتی پالیسی کے تحت پاور پلانٹس کے لیے 15 فیصد منافع غیر منصفانہ طور پر حاصل کیا لیکن پاور پلانٹس کے 50 فیصد سے 70 فیصد سالانہ منافع کمانے کی نشاندہی ہوئی۔ انکوائری کمیٹی نے آئی پی پیز کے مالکان سے جلدی یہ رقم کا فارمولا بند کرنے کی تجویز دیتے ہوئے مذکورہ مالکان سے 100 ارب روپے ریکوری کی تجویز دی۔
ذرائع کے مطابق پاور پلانٹس مالکان نے مذکورہ پلانٹس کی لاگت اور ٹیرف زائد منظور کرایا جبکہ نیپرا کی جانب سے آزاد ذرائع سے لاگت کی چھان بین نہیں کی گئی۔ پاور پلانٹس مالکان نے پلانٹس کی دو ارب روپے سے 15 ارب روپے تک اضافی لاگت دکھا کر نیپرا سے بھاری رقم وصول کیا ہے کیونکہ ریکارڈ میں کوئلہ پاور پلانٹ کی 30 ارب روپے اضافی لاگت دکھائی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں کمپنیوں کی جانب سے تیار کی گئی پاور پلانٹ کی لاگت متعلقہ اہلکاروں کی جانب سے قبول کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ پاور پلانٹس کی جانب سے بجلی کی پیداوار میں کم لاگت کا فیول استعمال کر کے بھاری منافع کمایا جا رہا تھا جبکہ نیپرا کو مختلف حربوں کے ذریعے بااثر مالکان کی جانب سے اجازت نہ دینے پر آڈٹ نہیں کرایا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیٹی نے 2002 کے بعد لگائے گئے پاور پلانٹس کا فرانزک آڈٹ کرانے کی تجویز دی اور مختلف ممالک میں یہی پاور پلانٹس کی لاگت اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے تصدیق کرنے کی تجویز بھی دی۔
ذرائع نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے انکوائری کمیٹی کو معاملے کی تفتیش کے لیے تین ماہ کا وقت دیا تھا۔ تاہم انکوائری کمیٹی کو معاملے کی چھان بین کرکے وزیراعظم کو رپورٹ جمع کرانے کے لیے آٹھ ماہ لگے جس کی وجہ پاور پلانٹس سے دستاویزات حاصل کرنے میں مشکلات پیش آنا اور معاملے کی پیچیدگیاں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو پاور پلانٹس مالکان سے 100 ارب روپے ریکوری کے لیے تفصیلی بریفنگ دی جا چکی ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عمران خان نے گردشی قرضوں میں اضافے، مہنگی بجلی کی پیداوار اور اعلیٰ پاور ٹیرف پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ پاور ٹیرف اور بجلی کی پیداوار کی لاگت کم کرنے کا حکم دیا تھا۔