جناب وزیراعظم! آپ غلط کہتے ہیں، پاکستان لاک ڈائون کا متحمل ہو سکتا ہے مگر اس پلان کے تحت ۔۔۔

مہلک کورونا وائرس میل جول کے باعث تیزی سے پھیلتا ہے، سماجی دوری اور لاک ڈاون وقت کی ضرورت، عام پاکستانی کی معاشی مشکلات حقیقت مگر درست انداز میں حکومتی امداد کے ذریعے مداوا ممکن ہے

1585

آپ اب تک کورونا وائرس سے متعلق بہت کچھ پڑھ چکے ہوں گے اور یقیناً ایک ہی طرح کی معلومات بار بار نہیں پڑھنا چاہتے ہوں گے مگر یہ مضمون اپنے متن کے حوالے سے کچھ مختلف ہے۔

انسانیت کے لیے مہلک کورونا وائرس کسی ماہر اور تیز شکاری کی طرح دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو شکار اور  بے رحمی سے ہزاروں افراد کو موت کے منہ میں اتار چکا ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں بھی اس وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے مگر وفاقی حکومت ابھی تک اس کے آگے بند باندھنے کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

اس مضمون میں ہم دلائل دیں گے کہ انسانیت کے اس دشمن سے بچائو کے لیے پاکستان میں مکمل لاک ڈاون کیا جانا کیوں ضروری ہے اور ایسا کیسے کیا جاسکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس پاکستان کی معیشت کیلئے کس حد تک تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے؟ 

سب سے پہلے تو ان حقائق پر ہمیں ایمان کی حد تک یقین ہونا چاہیے کہ کورونا وائرس میل جول کے ذریعے تیزی سے پھیلتا ہے، یہ عام نزلہ زکام سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جو عدم احتیاط کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو موت سے دوچار کر سکتا ہے۔

اسکا ابھی تک کوئی علاج  دریافت نہیں ہو سکا، کوئی ویکسین نہیں ہے اور وبائی امراض کے ماہرین کے نزدیک ابھی تک اس کا واحد حل سماجی دوری اور گھروں تک محدود رہنا ہی ہے۔

سماجی دوری کا مطلب کاروباری مراکز کی بندش اور لوگوں کو انکی ملازمت کی جگہ پر جانے سے روکنا ہے۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں جہاں لوگوں کی اکثریت غریب ہے اور ان کے پاس اتنی جمع پونجی نہیں ہوتی کہ طویل عرصے تک بغیر کام کاج گھروں تک محدود رہیں وہاں لاک ڈاون یا سماجی دوری ایک مشکل کام ہے۔

مگر کاروبار کی اس طرح کی بندش اور لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنا پھر بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اس سے لاکھوں جانیں بچائی جاسکتی ہیں اور کوئی بھی رقم اس جانی نقصان کا مداوا نہیں ہوسکتی ۔

اگرچہ لوگوں کی مالی مشکلات سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ حقیقی معنوں میں بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے کہ حکومت آگے آئے اور لوگوں کو پورا نہ سہی انکی آمدن کے کچھ حصے کے برابر ہی معاوضہ ادا کرے تاکہ عوام کی پریشانی کم ہوسکے۔

پاکستان میں کورونا وائرس کا اثر زیاددہ شدید کیوں ہوگا؟

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے بچاو کے لیے سماجی دوری بنائے رکھنے لے لیے کئی اداروں کے ملازمین گھروں سے کام کر رہے ہیں اور یوں کاروبار اور معیشت کا پہیہ کسی نہ کسی طرح چل رہا ہے ۔

مگر پاکستان میں ایسا بڑے پیمانے پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہماری معیشت کا ڈھانچہ گھر سے کام کرنے کے مطابق نہیں ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک انٹرپرینیور کے مطابق ‘آپ کو پاکستان کی اقتصادیات کو سمجھنا پڑے گا، ہم یہ بات کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں ای کامرس اور سٹارٹ اپس تیزی سے بڑھ رہے ہیں تاہم اگر بہتر اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی بات کی جائے تو حقیقیت یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ دو تین سال قبل اس سے متعارف ہوئے۔’

‘یہاں زیادہ تر لوگوں کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تاہم انٹرنیٹ عوام کی اکثریت کی پہنچ میں ٹوجی اور تھری اور خاص طور پر فورجی کی آمد کے بعد آیا یہ 2016-17 کی بات ہے۔’

یہ بھی پڑھیے: آئی ایم ایف آئندہ ہفتے پاکستان کو ایک ارب 40 کروڑ ڈالر قرض دے گا

لیکن یہ سب اہم کیوں ہے؟ کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے معاشی خدوخال گھر سے کام کی اجازت نہیں دیتے، فرض کیا اگر آپ یونائٹڈ بینک کے ٹریژری ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہیں تو آپ اپنا سارا کام گھر سے کر سکتے ہیں تاہم اس بات کی تصدیق ہم نے یونائٹڈ بینک سے نہیں کی کہ وہ کس حد تک گھر سے کام کی اجازت دے سکتے ہیں، لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ کسی ٹیکسٹائل مل کی نسبت بینکوں کے لیے اپنے ملازمین کو گھروں سے کام کی اجازت دینا زیادہ آسان ہے۔

ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افرادی قوت 7 کروڑ  50 لاکھ افراد پر مشتمل ہے مگر اس کی اکثریت کام کاج کی جگہ پر جائے بغیر روزی نہیں کما سکتی کیوں کہ کاروبار کی ساخت ہی ایسی ہے۔ ایسی صورت حال میں شٹ ڈائون کا مطلب ہے کہ زیادہ تر لوگوں کی آمدن رک جائے گی۔

لاک ڈاون سے کتنے پاکستانی متاثر ہوسکتے ہیں؟ 

حالانکہ اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں تاہم پاکستان کے ادارہ شماریات نے کورونا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سے ملک کی لیبر فورس کے 55.6 فیصد حصے کےمتاثر ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے ۔

یہ وہ طبقہ ہے جو دہاڑی دار اور یومیہ اجرت پانے والے افراد پر مشتمل ہے، یہ کسی کاروباری ادارے کے مستقل ملازم ہیں نا ان کی کوئی مقررہ آمدن ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس عالمی معیشت کو دو کھرب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے: اقوامِ متحدہ

کہا جا سکتا ہے کہ تمام افراد ہی لاک ڈائون سے متاثر ہو سکتے ہیں اور کاروباری یا صنعتی اداروں کی جانب انہیں کچھ معاوضہ نہین مل سکتا کیونکہ وہ براہ راست ان کی ملازمت میں نہیں ہیں۔

افرادی قوت کے باقی 44.4 فیصد میں سے 42.9 فیصد تنخواہ دار ملازمین ہیں اور بقیہ 1.5 فیصد کاروباروں کے مالکان ہیں ۔ تنخواہ دار طبقے کو دہاڑی دار طبقے کی نسبت کچھ تحفظ حاصل ہے مگر ان میں سے بھی اکثریت کی مالی حالت زیادہ اچھی نہیں۔

تنخواہ دار طبقے میں بھی 22 فیصد وہ ہیں جنھیں ہر ماہ تنخواہ باقاعدگی سے مل جاتی ہے جبکہ 14 فیصد وہ ہیں جنھیں تنخواہ ملنے کا کا کوئی وقت مقرر نہیں، یعنی کبھی ایک ہفتے کے بعد، کبھی پندرہ دن اور کبھی مہینہ پورا ہونے پر۔ اس کے علاوہ وہ ملازمین بھی ہیں جنھیں کسی کام کے پورا ہونے پر تنخواہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس ، اسٹیٹ بینک اور پاکستان بینکس ایسوسی ایشن نے ریلیف پیکیج جاری کردیا

یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی افرادی قوت میں صرف 22 فیصد وہ لوگ ہیں جو کسی معاہدے کے تحت ملازمت سے وابستہ ہیں اور انہیں ماہانہ بنیاد پر تنخواہ مل جانے کا امکان ہوتا ہے جبکہ 78 فیصد روزانہ بہتر اجرت کی امید پر کام پر جاتے ہیں۔

تاہم یہ 22 فیصد تنخواہ دار بھی تنخواہوں میں کمی اور نوکریوں سے برطرفی جیسے معاملات کی زد پر رہتے ہیں اور لاک ڈاون کے باعث ان کے لیے خطرہ مزید بڑھ جائے گیا ہے۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 78 فیصد خاندانوں کو لاک ڈاون کی صورت میں حکومتی امداد کی ضرورت ہوگی وگرنہ انہیں اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی صحت پر سمجھوتہ کرکے ان خطرناک حالات میں کام ڈھونڈنے کے لیے گھروں سےباہر نکلنا پڑے گا۔

حکومت کی جانب سے معاشی امداد

کورونا اور اس سے بچائو کے لیے لگائے جانے والے جزوی لاک ڈاون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی مشکلات سے مقابلے کے لیے وزیرا عظم عمران خان نے 1200 ارب کے معاشی ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔

 اس سے پہلے پاکستان میں کسی حکومت کی جانب سے معاشی بد حالی کے دنوں کے مقابلے کے لیے اتنا بڑا پیکج  نہیں دیا گیا۔

یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ حکومت درپیش مسئلے کی سنگینی سے آگاہ ہے مگر ہمیں لگتا ہے کہ حکومت جو کر رہی ہے وہ اس سے مختلف ہےجو اسے کرنا چاہیے۔

اس پیکج میں حکومت نے مزدور طبقے کے لیے 200 ارب روپے رکھے ہیں جو کہ شاندار ہے اسی طرح 150 ارب روپے تقریبا  ایک کروڑ پچیس لاکھ خاندانوں کو چار ماہ تک ماہانہ بنیادوں پر تین ہزار روپے کی مالی امداد دینے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح حکومت نے پچاس ارب روپے طبی عملے کے حفاظتی سامان کی خریداری کے لیے مختص کیے۔

لیکن ہماری نظر میں اس اعلان کردہ پیکج میں بہت کچھ ایسا ہے جو کہ کسی صورت بیل آؤٹ پیکج نہیں کہلا سکتا۔

مثال کے طور پر حکومت نے اس پیکج میں 280 ارب روپے گندم کی خریداری کے لیے مختص کیے ہیں مگر یہ کوئی نیا کام نہیں ہے، حکومت ہر سال یہ کرتی ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ گندم خرید کر مفت تقسیم کرتی ہے بلکہ حقیقت میں تو یہ گندم فلور ملوں اور ڈسٹری بیوٹروں کو بیچ کر منافع کمایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو نقصان، لیکن ٹیکنالوجی کمپنیوں کے وارے نیارے

اسی طرح حکومت نے 100 ارب روپے ٹیکس ریفنڈ کے نام پر مختص کیے ہیں مگر درحقیقت یہ رقم حکومت نے ٹیکس دہندگان سے جمع کر رکھی ہوتی ہے۔

اسی طرح عمران خان کی حکومت نے یہ تاثر دینےکی کوشش کی ہے کہ اس نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے 75 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا کورونا وائرس کے باعث تیل کی عالمی منڈی میں مسلسل گرتی قیمتوں کی وجہ سے ہوا ہے جو کہ تقریبا ً ساٹھ فیصد تک گر چکی ہیں۔

یوں اس بارہ سو ارب کے امدادی پیکج کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں 455 ارب روپے کسی صورت بیل آؤٹ پیکج کے ضمرے میں نہیں آتے اور حکومت کے اصل امدادی پیکج کا حجم 750 ارب روپے ہے۔

اگرچہ اصل پیکج کا سائز بھی کچھ کم نہیں مگر جب حساب لگایا جائے کہ اس میں سے کتنا امیروں اور بڑے کاروباروں کو جائے گا تو پتہ چلتا ہے کہ عام اور غریب پاکستانیوں کے لیے تو کچھ خاص بچا ہی نہیں ہے۔

تو بات یہ ہے کہ کوئی بھی معاشی امدادی پیکج اسوقت تک اس بحران سے نمٹنے میں معاون نہیں ہوسکتا جب تک وہ پاکستان کی لیبر فورس کے اس 78 فیصد حصے کو فائدہ نہ پہنچائے جس کے پاس آمدنی کا باقاعدہ ذریعہ نہیں ہے اور جو ان حالات میں حکومتی امداد کا منتظر اور مستحق ہے۔

ایسی صورت میں آبادی کے بڑے حصےکو امدادی رقم کی براہ راست ادائیگی ہی سود مند ہوسکتی ہے اور اسکے لیے ہمارے پاس دستیاب وسائل اور نظام سے مطابقت رکھنے والا ایک پلان  موجود ہے۔ 

ہمارا پلان کیا ہے؟

کورونا لاک ڈاون کے باعث عام پاکستانی کو معاشی مسائل سے بچانے کے  لیے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ رقم زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں تک پہنچائی جائے۔

سوال یہ ہے کہ مستحق افراد کو ڈھونڈا کیسے جائے اور ان تک امداد کیسے پہنچائی جائے؟ تو اس حوالے سے ہمارے پاس کچھ تجاویز ہیں۔

حکومت نے معاشی پیکج میں 12.5 ملین افراد کو معاشی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے مگر ہمارا ماننا ہے کہ تقریبا 80 فیصد سے زائد پاکستانیوں کو معاشی امداد کی ضرورت ہوگی۔

حالیہ مردم شماری اور پرافٹ اردو کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ  چالیس لاکھ گھرانے ہیں۔ تو یہ کیسے پتہ چلایا جائے کہ ان میں سے کس کو امداد کی ضرورت ہے؟

جواب آسان ہے اور وہ یہ کہ حکومت کو ان لوگوں کی فہرست بنانی چاہیے جنھیں امداد نہیں چاہیے اور ایسا ایف بی آر اور نادرا کے ڈیٹا کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا کے باعث 2020میں عالمی تجارت ایک تہائی رہ جائے گی: عالمی ادارہ برائے تجارت

2012 میں نادارا اور ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس چوروں کا پتہ لگانے کے کے لیے ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس کے تحت یہ پتہ چلا تھا کہ تین کروڑ افراد ایسے ہیں جو طرز زندگی تو پر آسائش رکھتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے۔

بعد ازاں بنکوں سے حاصل کردہ ریکارڈ سے یہ تعداد تین سے چار کروڑ افراد تک جا پہنچی تھی۔ یہ تمام افراد الگ الگ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔

ہماری رائے میں حکومت کو ان چار کروڑ افراد کو معاشی پیکج سے باہر نکال دینا چاہیے اس کے علاوہ دو کروڑ گھرانے ایسے ہیں جن کا کم از کم ایک فرد حکومتی ملازم ہے انہیں بھی امدادی پیکج کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس سب کے بعد دو کروڑ 80 لاکھ گھرانے بچتے ہیں جنھیں اگر چارماہ کے لیے(10 ہزار ماہانہ) 40 ہزار روپے دیے جائیں تو یہ 1.12 کھرب روپے بنتے ہیں جو کہ حکومت کے اعلان کردہ پیکج سے کچھ کم ہے۔

یہ رقم لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک بار پھر حکومت کی اپنی چلائی ہوئی مہم ہی کام آسکتی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے موبائل نمبروں کی بائیو میٹرک تصدیق کی ایک مہم چلائی تھی جس کے تحت ملک کی 78 فیصد آبادی یا سولہ کروڑ پچاس لاکھ افراد موبائل استعمال کرتے ہیں۔ باقی 22 فیصد کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ بوڑھے یا بچے ہیں جو کسی کمانے والے پر منحصر ہیں یا غریب افراد ہیں جن کا ڈیٹا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں درج ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ایک کروڑ پچیس لاکھ گھرانوں کو بینظیر انکم سپورٹ کے تحت جبکہ باقی ایک کروڑ پچاس لاکھ پچاس ہزار گھرانوں کو نادرا کے ذریعے امدادی رقم پہنچانا چاہیے۔

اتنے بڑے پیمانے پر یہ کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت موبائل کمپنیوں کے بنک اکاونٹس میں یہ رقم بروقت منتقل کردے تاکہ وہ وقت پر متعلقہ افراد کو یہ رقم پہنچا سکیں جن کے ذریعے اس کو تقسیم کیا جائے گا۔

اسکے بعد رقم کے مستحقین کو بذریعہ ایس ایم ایس اطلاع کردی جائے کہ وہ اپنی رقم فلاں دکان جو کہ ان لوگوں کے قریب  ہی ہو سے حاصل کرلیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رقم فراہم کرنے والے مراکز کو لاک ڈاون میں کھلا رہنے کی اجازت دی جائے۔

کیا یہ پلان شفاف اور سود مند ہے؟

اگرچہ اس پلان میں  امکان موجود ہے کہ کچھ غیر مستحق افراد تک امدادی رقم پہنچ جائے اور یہ بھی کہ کچھ مستحق افراد امداد سے محروم رہ جائیں مگر پھر بھی اس کے کامیاب اور پر اثر ہونے کے امکانات 95 فیصد ہیں۔

یہ دعویٰ ہم اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ حکومت کا اپنا ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک کے 78 فیصد گھرانوں کو معاشی امداد کی ضرورت ہے جبکہ ہماری جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ تقریباً 82 فیصد گھرانے امداد کے ضرورت مند ہیں۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ہمارے شامل کیے ہوئے گھرانوں کو امداد کی ضرورت نہیں تب بھی یہ اس پلان کے درست ہونے کی شرح 95 فیصد ہی ہے۔

ہم یہ دعوی تو نہیں کرتے کہ اس پلان میں کوئی خامی نہیں اور اسکو بہتر بنانے کی ضرورت نہیں مگر جس تیزی سے وائرس پھیل رہا ہے اس میں حکومت کو لوگوں کی امداد کے حوالے سے نئے سرے سے تمام اقدامات کرنے کےلیے بہت سا وقت درکار ہوگا جو تیزی سے پھیلتے وائرس کے باعث کوئی دانشمندانہ قدم ہرگز نہیں ہوگا۔

امدادی پیکج کے لیے مالی وسائل کا مسئلہ

ہم جانتے ہیں کہ حکومت کا اصل امدادی پیکج 750 ارب روپے کا ہوگا۔ اس کے لیے 230 ارب روپے آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کی درخواست پر جاری کیے جانے والے 1.5 ارب ڈالر سے حاصل ہونگے۔

باقی 520 ارب بنکوں سے قرض، ترقیاتی بجٹ کی معطلی اور مرکزی بنک کی جانب سے پیسے چھاپ کر حاصل کیے جائیں گے۔

ہمارا پیش کیا گیا پلان اگرچہ حکومت کے پیکج سے 370 ارب روپے زیادہ ہے مگر اس کے لیے فنڈز بنکوں سے مزید قرض لے کر اور عالمی مالیاتی مارکیٹ میں بانڈ جاری کرکے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

اس سب کے باوجود ہمیں وزیراعظم کے اس ڈر کہ اگر چار ماہ بعد بھی وائرس ختم نہ ہوا تو کیا ہوگا؟ کا احساس ہے اور ہم ان کے اس خوف سے متفق ہیں کیونکہ ہمارا پیش کیا گیا پیکج بھی صرف چار ماہ کے لیے ہے۔

چار ماہ کے بعد حکومت کی حالت یہ ہوگی کہ اسکے پاس مزید قرض کے ذرائع ختم ہوچکے ہونگے اور ٹیکس جمع نہ ہونے کے باعث اس کے پاس ایک ہی آپشن ہو گا کہ وہ پیسہ چھاپے جس سے پہلے سے آسمان کو چھوتی مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور غریب اور کمزور طبقہ ان مشکل حالات میں مزید پس جائے گا۔

مگر چار ماہ تک احتیاطی اقدامات کے صحیح طریقے سے نفاذ کے بعد حالات کو اس طرح کا ہونا چاہیے کہ حفاطتی تدابیر اپنا کرمعیشت کو دوبارہ کھولا جاسکے۔

وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بلکل بجا ہے کہ چار ماہ تک معیشت بند کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہوگی مگر ہمیں ان چار مہینوں میں وائرس کیخلاف زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنا ہوگی اور یہ لاکھوں جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے کہیں بہتر ہے۔

یقین مانیے ہمارے پاس درپیش حالات سے مقابلے کا یہی ایک قابل عمل طریقہ ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here