چینی برآمد کا اصل فائدہ کاشتکاروں کو ہوا: پاکستان شوگر ملز ایسوی ایشن

پی ٹی آ ئی حکومت کی برآمدات سے متعلق پالیسی سے پہلے کاشتکار اور شوگر انڈسٹری شدید مایوسی کا شکار تھی حکومت کو تو کاروبار چلانے کا کریڈٹ لینا چاہیے: اسلم فاروق

691

لاہور: پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت کی جانب سے آٹے اور چینی بحران سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ 

ایسوسی ایشن کے صدر اسلم فاروق کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ تو پہلے ہی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے تاہم حکومت کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ کا  مختصر حصہ جاری کیا گیا ہے جسے میڈیا نے سنسنی خیزی پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔

اسلم فاروق کا رپورٹ کے حوالے سے کہنا تھا کہ کہ ایف آئی اے نے بہت محنت سے کام کیا ہے مگر شوگر انڈسٹری کے معاملات نہ صرف بہت پیچیدہ ہیں بلکہ قیام پاکستان سے بھی پہلے کے ہیں، لہٰذا انہیں سمجھنا آسان نہیں ۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ ایف آئی اے نے رپورٹ مرتب کرتے ہوئے ان سے رابطہ نہیں کیا جو کہ اگر کرلیا جاتا تو رپورٹ کو زیادہ شفاف بنایا جا سکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

میری کمپنی نے اپنے مارکیٹ شئیر سے کم چینی برآمد کی، جہانگیر ترین کی وضاحت

وزیراعظم کے قریبی رفقا جہانگیر ترین اور خسرو بختیار چینی بحران کے ذمہ دار، سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا دعویٰ

اچھی خبر: بانڈ مارکیٹ معاشی بحالی کے اشارے دے رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک بری خبر بھی ہے

انہوں نے اس ضمن میں تفصیلی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے کمیشن کیساتھ مکمل تعاون کا اعادہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ کمیشن معاملے کی شفاف تحقیقات  کے لیے ایسوسی ایشن کے ساتھ مناسب انداز میں کام کرے گا تاکہ تحقیقات میں کوئی ابہام یا نقص نہ رہے۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں نقص کی نشاندہی کرتے ہوئے اسلم فاروق کا کہنا تھا کہ ایک طرف رپورٹ میں چینی کی قیمت  51.64 روپے سے 63.59 روپےفی کلو تک پہنچنے کی وجہ برآمدات کو بتایا گیا ہے تو دوسری طرف 2018-19 میں گنے کی فی من 180روپے قیمت چینی کی 63.59 روپے فی کلو قیمت کے مقابلے میں بہت زیادہ بتائی گئی ہے۔

انہوں نے پوچھا کہ وافر مقدار میں چینی کی برآمد اورقیمت میں اضافے کے بغیر شوگر انڈسٹری اور کاشتکارکا گزارا کیسے ممکن تھا؟

ان کا کہا تھا کہ کی پی ٹی آ ئی حکومت کی برآمدات سے متعلق پالیسی سے پہلے کاشتکار اور شوگر انڈسٹری شدید مایوسی کا شکار تھے اور حکومت کو تو اس بات کا کریڈٹ لینا چاہیے کہ وہ انڈسٹری کے کاروبار کو چلانے کی ذمہ دار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چینی کی برآمدات کی مد میں پنجاب حکومت کی تین ارب کی سرمایہ کاری  نہ صرف ملک کے لیے 50 ارب روپے کمانے کا ذریعہ بنی بلکہ اس سے کشتکاروں کو بھی 70 ارب روپے ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ غلط تھا تو اسے اس بارے میں کاشتکاروں سے پوچھنا چاہیے کہ ان کی آمدن پچھلے ایک سال میں کتنی بڑھ چکی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here