کورونا وائرس، صنعتی و کاروباری بقاء کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟

کیا یہ وبا پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں پر اثرانداز ہو گی یا اس کے دیگر قومی بحرانوں کی طرح کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ پرافٹ کی جواب جاننے کے لیے ماہرین معاشیات اور بزنس لیڈرز سے بات چیت

1463

ہر وہ شخص جو بالخصوص 1990ء اور 2000ء کی دہائی کے اوآخر میں کراچی میں رہ چکا ہے، اس کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے موجودہ مناظر کچھ اجنبی نہیں ہیں۔  رینجرز کے دستے مارکیٹوں کے باہر پیٹرولنگ کر رہے ہیں، دکانیں بند ہیں اور سکولوں کی بندش کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔

اور لاک ڈائون کے باعث سڑکوں پر گہما گہمی خاصی کم ہو چکی ہے۔ یہ لاک ڈائون محض ایک علاقے یا آبادی یا محض کراچی و حیدرآباد میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں نافذ کیا گیا ہے۔ اور کراچی میں ماضی میں ہونے والی ہڑتالوں کے برعکس، یہ لندن سے آنے والی کسی فون کال پر ختم نہیں ہو گا۔ یہ ویکسین کے ذریعے علاج سے ہی ختم ہو گا اور اس پر لاگت بھی بڑے پیمانے پر آئے گی۔

یہ کراچی کا ایک منظر ہے اور پاکستان بھر میں کورونا ہڑتال جاری ہے۔ زیرِ نظر سطور جس وقت لکھی جا رہی تھی، کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 510 (اس وقت مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق، 3118 ہو چکی ہے) تک پہنچ چکی تھی اور تین مصدقہ اموات (تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، 45) ہو چکی تھیں، یہ حالات ہم سب پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا ایک دلچسپ بیان ڈان میں شائع ہوا جس میں انہوں نے بنیادی نوعیت کا یہ سوال پوچھا کہ یہ کورونا کاٹتا کیسے ہے؟ اگرچہ وزیراعلیٰ پر کوئی بھی ایک بہت بڑا دانشور ہونے کا الزام عائد نہیں کر رہا لیکن آپ یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ دوبارہ جلد ایسی غلطی نہیں دہرائیں گے۔

چناں چہ، مشکلات کے اس عہد میں ہم کس جانب دیکھیں؟ درست، پاکستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے دو نمایاں واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں۔

اول، وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کی۔

ان کا تبصرہ دو حوالوں سے نمایاں تھا۔ اول، ان کی غالباً یہ کوشش تھی کہ قوم کو پرسکون رکھا جائے، انہوں نے نہایت پرسکون دکھائی دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے جو کسی حد تک اعتماد کی علامت تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ تک نہیں سوچا کہ کورونا وائرس بڑی حد تک ایک خطرہ ہے جیسا کہ اس سے صحت یابی کے امکانات 97 فی صد ہیں، برا مت مانیں تو جب بحران میں شدت پیدا ہوئی تو کورونا وائرس سے اموات کی شرح قریباً 11 فی صد تک پہنچ گئی۔

ان کی گفتگو کا دوسرا اہم نکتہ ان کی ابتدائی بے فکری کا منطقی نتیجہ تھا، جیسا کہ انہوں نے کہا کہ شہروں کو لاک ڈائون نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم شہروں کو لاک ڈائون کرتے ہیں تو لوگ پہلے سے ہی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم انہیں ایک جانب کورونا سے تو بچا لیں گے لیکن دوسری جانب وہ بھوک سے مر جائیں گے۔

مزید پڑھیں:

کورونا وائرس کے معیشت پر اثرات، حکومت کا کاروباری طبقے کو بیل آؤٹ پیکج دینے پرغور

کورونا وائرس: عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات، اسٹاک مارکیٹس کو 19 کھرب، ٹیکنالوجی کمپنیوں کو 300 ارب ڈالر نقصان

کورونا وائرس نےعالمی معیشتوں کوہلا کر رکھ دیا،شائد پاکستان کے لیے ویسا تباہ کن ثابت نہ ہو

وزیراعظم کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان امریکا یا یورپ نہیں ہے کہ ہم شٹ ڈائون کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وہ کسی حد تک درست ہیں، پاکستان میں غیرمعمولی غربت ہے اور یہ خوف بھی موجود ہے کہ لوگوں کو فاقے کرنے پڑ سکتے ہیں۔ حکومت نے بہ ظاہر بہت جلد فیصلہ کر لیا، جیسا کہ لاک ڈائون کرنے پر اس وقت غور کیا گیا جب پاکستان میں کورونا وائرس کے صرف 20 کیس ہی رپورٹ ہوئے تھے لیکن وہ بہ ظاہر اٹل دکھائی دے رہے تھے کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔

انہوں نے بعدازاں ایک اور موقع پر کہا کہ اس سوچ کی وجہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے حالات کا اٹلی سے موازنہ ممکن نہیں، ان کی فی کس آمدن اور معاشی حالات ہماری نسبت بہت بہتر ہیں۔ ہم اگر ملک بھر میں لاک ڈائون نافذ کرتے ہیں تو ہم اپنے دیہاڑی دار ورکرز اور مزدوروں کے حوالے سے خوف زدہ ہیں۔ وہ اگلے چند ہفتوں کے دوران کیا کریں گے؟

وزیراعظم نے لوگوں کو غربت سے بچانے اور معیشت کے تحفظ کے لیے شہریوں کو روزمرہ کے معمول انجام دینے کی اجازت دے دی۔ فضائی سفر پر اب تک سخت پابندیاں نہیں لگائی گئیں، پنجاب میں ریستوران اور دکانیں اب بھی کھلی ہیں اور ملک بھر میں جمعہ کے اجتماعات ہو رہے ہیں (کیا اسلامی نظریاتی کونسل ان حالات میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھے گی؟) سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس نے دکانوں اور شاپنگ مالز پر پابندیاں لگائی ہیں اور حتیٰ کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے رضاکارانہ طور پر سماجی فاصلہ رکھنے کی درخواست بھی کی ہے۔ (اس وقت حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں لاک  ڈائون لگائے جانے کے علاوہ نماز جمعہ کے اجتماعات کو بھی محدود کیا جا چکا ہے۔)

دوسری اہم پیشرفت سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے حالیہ اقدامات ہیں:

مرکزی بنک کی جانب سے پہلی بار پالیسی ریٹ میں 75 بیسز پوائنٹ کی کمی کی گئی اور یوں شرح سود 13.35 فی صد سے کم ہوکر 12.5 فی صد ہو گئی (مرکزی بنک نے شرح سود میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے 11 فی صد کر دیا ہے)۔ بنک نے مزید اقدامات کے بارے میں بھی اعلان کیا جیسا کہ صنعت کو سبسڈی پر قرضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا: نان ایکسپورٹ سیکٹرز کے لیے 100 ارب روپے کی عارضی معاشی ری فنانس سکیم اور کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے پانچ ارب روپے کی ری فنانس سہولت فراہم کی گئی جس کے تحت ہسپتالوں کو یہ اجازت حاصل ہو گی کہ وہ ناگزیر آلات خریدنے کے لیے بنکوں سے تین فی صد شرح سود پر قرضہ لے پائیں گے۔

بعدازاں، سٹیٹ بنک آف پاکستان نے تاخیر کے باعث مشکلات کا شکار برآمدکنندگان کے لیے چھ مختلف رعایتوں کا اعلان کیا جن میں قرض لینے کے حوالے سے شرائط میں نرمی، ادائیگیوں اور درآمدی و برآمدی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے مدت میں اضافہ اور مصنوعات کی ترسیل کے لیے زیادہ وقت فراہم کرنے کی طرح کے اقدامات شامل ہیں۔

پرافٹ نے ان پیشِ رفتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستانی ماہرینِ معاشیات، پالیسی ایکسپرٹس اور بزنس لیڈرز سے کچھ سوالات پوچھے: وہ ان اقدامات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ کاروباری سرگرمیاں کس طرح متاثر ہو رہی ہیں؟ کیا تنخواہیں متاثر ہوئی ہیں اور لوگوں کے بنک اکائونٹ میں موجود رقوم کم ہوئی ہیں، ان حالات میں ہم غربت پر کس طرح قابو پائیں گے؟ اور وبا کے ان دنوں میں صنعتوں و کاروبار کی بقاء کے لیے چند موثر اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟

اول، ماہرین معاشیات اور پالیسی ایکسپرٹس

سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ وہ مکمل لاک ڈائون نہ کرنے کے فیصلے کی ستائش کرتے ہیں۔ ہماری حکومت اور معیشت چین کی طرح مرکزیت کی حامل نہیں ہے جہاں مرکزی حکومت کے ایک فیصلے پر لاک ڈائون ممکن ہے اور نہ ہی ہم بہت سے یورپی ملکوں کی طرح سوشل ویلفیئر ریاست ہیں جہاں لوگ گھروں میں رہ سکتے ہیں اور حکومت سے امداد حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے، تاہم، یہ کہا کہ اگر لاک ڈائون کرنا ناگزیر ہو جائے تو حکومتِ پاکستان کو یہ لازمی بنانا ہو گا کہ لاک ڈائون کے دوران دیہاڑی دار مزدوروں کی بقاء متاثر نہ ہو۔ انہوں نے کچھ طریفہ کار اختیار کرنے کی حمایت بھی کی جیسا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کو ایڈوانس ادائیگی کر دی جائے، بجلی کے ٹیرف میں ریلیف دینے کے لیے یہ دیکھا جائے کہ بجلی کے کتنے یونٹ استعمال ہوئے ہیں اور انفرادی فلاح کاروں کو ابھارا جائے کہ وہ آگے آئیں اور سماجی خدمات انجام دیں۔

عابد سلہری سٹیٹ بنک کے بزنس کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے حوالے سے زیادہ پرجوش نظر نہیں آئے۔ ان کے مطابق، دنیا بھر کے سٹاک ایکسچینجوں کے حالیہ تجربے کے بعد سٹیٹ بنک کو یہ ادراک کرنا چاہئے کہ منڈی کے حالات شرح سود میں کمی سے بہتر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ اسے منتظم کرنے کی امید نہیں کر سکتے، حتیٰ کہ اگر آپ امریکا کی طرح شرح سود صفر بھی کر دیں تاوقتیکہ آپ موجودہ عالمی وبا کے ساتھ موثر انداز سے پیش نہیں آتے۔

وہ اس کے بجائے یہ چاہتے ہیں کہ مرکزی بنک کورونا وائرس کے پھیلائو کے تناظر میں بہترین اور بدترین منظرناموں کی وضاحت پر توجہ دے اور پرامید طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ مالیاتی شرائط میں نرمی کے لیے مذاکرات کرے۔

یہ اَمر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ وہ فلاح کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان درحقیقت فلاح کاروں کی قوم ہے۔ اس وقت ہمیں تعاون حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور نجی شعبہ اپنا کردار ادا کرے اور اپنے سی ایس آر فنڈز اس مقصد کے لیے استعمال کرے۔ ہمیں اس حوالے سے کام کرنے کے لیے کسی بھی وزارت کے تحت رضاکاروں کو منظم کرنا چاہئے۔

ان کی اس گفتگو کا خوش کن پہلو یہ ہے جیسا کہ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری، تحقیق اور طبی شعبہ میں بھرتیوں کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ حکومت آئل کے بلز کم کرکے کچھ معاشی وسائل بچا سکتی ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ حکومت آئل کے درآمدی بلوں کی مد میں پانچ ارب ڈالر تک بچا سکتی ہے۔ اس سے حکومت کی ریونیو کے تناظر میں ہونے والے نقصان کو کم کرنے میں مدد حاصل ہو گی اور وہ کچھ مثبت اقدامات کرنے کے قابل ہو سکے گی۔

دریں اثناء، وزیراعلیٰ پنجاب کے موجودہ مشیر خزانہ سلمان شاہ لاک ڈائون کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر رسمی معیشت کے حجم کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ممکنہ طور پر 20 لاکھ لوگوں کی ملازمت چھوٹ سکتی ہے۔ اگر ہم امداد کے بارے میں سوچیں تو تین ماہ کے لیے 20 لاکھ لوگوں کو مدد فراہم کرنے پر ملکی خزانے سے کھربوں روپے کا بجٹ مختص کرنا ہو گا۔

یہ خاصی پریشان کن صورتِ حال ہے، وہ احساس پروگرام کی اس قدر بڑے مسئلے سے پیش آنے کی اہلیت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ احساس پروگرام سے کئی گنا زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔ چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار میں کام کرنے والے ورکرز اور محدود پیمانے پر کام کرنے والے لوگوں کی غالباً بنکنگ سیکٹر تک کوئی رسائی نہیں ہے۔ ہمیں ایسی راہیں تلاش کرنی ہوں گے جن کے تحت ہم ان کی ضروریات بھی پورا کر سکیں۔

انہوں نے مرکزی بنک سے اختراع ساز ہونے کا مطالبہ کیا جیسا کہ اس وقت شرح سود میں کمی سے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کم سے کم شرح سود پر زیادہ سے زیادہ گردشی سرمایے کا بندوبست کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ حقیقی معنوں میں سرمایہ کاری کو بڑھایا جا سکے۔

سلمان شاہ نے مستقبل میں جھانکتے ہوئے کہا کہ ریٹیل اور ویلیو چینز ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائیں گی۔ بہت زیادہ ڈیجیٹائزیشن ہو گی، مصنوعات اور خدمات کی فراہمی کے لیے متعدد ذرائع جیسا کہ آن لائن خریداری موجود ہے۔ یہ تبدیلیاں گزشتہ کئی برسوں سے ہو رہی ہیں لیکن موجودہ حالات کے باعث ان میں تیزی آئے گی۔ دفاتر کو بھی لاتعداد غیرضروری اجلاسوں کو کم کرنا ہو گا۔

سلمان شاہ یہ امید رکھتے ہیں کہ پاکستان اگراس وبا سے بچ جاتا ہے تو اس کے لیے مستقبل میں بہت سے مواقع موجود ہیں۔ تیل کی قیمتیں کچھ عرصہ کے لیے کم رہیں گی اور عالمی پیداوار مزید متنوع ہو جائے گی۔ پاکستان کو اس تنوع سے اپنا حصہ حاصل کرنا چاہئے۔ اگر ہم سی پیک منصوبے پر جلد کام مکمل کر لیتے ہیں تو اس کی اہمیت بڑھ جائے گی۔

مرکزی بنک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے رُکن اسد زمان نے کہا کہ ایس بی پی نے وہ کیا جو کرنے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے شرح سود میں کمی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ماہرین معاشیات تو شرح سود آٹھ فی صد کرنے کے حوالے سے دلائل دے رہے ہیں۔ شرح سود کو افراطِ زر کی شرح سے زیادہ ہونا چاہئے تاکہ حقیقی شرح سود مثبت ہو اور اس کے برعکس تجویز پیش کرنے والے ماہرین معاشیات حقیقت میں سیاسی بیان دے رہے ہیں۔

انہوں نے یہ دلیل بھی پیش کی کہ یہ بحران حکومت کو بنیادی تبدیلیاں کرنے کے تناظر میں ایک شاندار موقع پیش کرتا ہے۔ ہم بڑے پیمانے پر سماجی فلاح کے پروگرام شروع کر سکتے ہیں جیسا کہ وزیراعظم عمران خان کی یہ خواہش بھی رہی ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی فیکلٹی کے رُکن نوید افتخار کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اس عالمی وبا سے پیش آنے کے لیے قومی خزانے کو خرچ کرنے کے تناظر میں وسائل کو واضح طور پر مختص کرنے کے علاوہ اس حوالے سے میکانزم تشکیل دینا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے خوف زدہ نہ ہونے کی تجویز دی ہے۔ یہ قابلِ ادراک ہے کیوں کہ ملک کے حکمران کے طور پر انہیں افراتفری پھیلانے سے گریز کرنے کی جانب ہی جانا ہے۔ لیکن ان کے حوالے سے یہ امید تھی کہ وہ لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے حوالے سے اپنے منصوبے جاری کرتے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں تین سے چار ہفتوں کے لیے معاشی اور سماجی سرگرمیاں محدود کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیشت میں غریب ترین 30 فی صد گھروں کے لیے سماجی تحفظ کے جامع پیکیج کا اعلان کیا جانا چاہئے جو نقد رقم اور کھانے پینے کی اشیا پر مشتمل ہو۔

آئی بی اے سے منسلک معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسرعدنان حیدر یہاں تک کہتے ہیں کہ لاک ڈائون معاشی اعتبار سے ممکن ہے اور اسے فوری طور پر لگا دیا جانا چاہئے۔ اگر وزیراعظم سخت پالیسی اختیار کرتے ہیں تو غریب طبقہ اور دیہاڑی دار ورکرز سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ یہ فراموش کرنے کی ضرورت نہیں کہ ملک کی آبادی کا 24.7  فی صد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ماہانہ آمدن چار ہزار روپے سے کم ہے۔ آپ کو پبلک پالیسی کے تناظر میں انتخاب کرنا ہی ہوتا ہے۔ بسا اوقات نسبتاً کم منفی اقدامات بہتر ثابت ہوتے ہیں۔

کاروباری کمیونٹی کیا سوچتی ہے؟

ایئرلفٹ کے سی ای او عثمان گل کہتے ہیں کہ وہ ان خدشات کا شکار ہیں کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں اگلے دو سے چار ہفتوں میں مکمل ڈائون ہونے جا رہا ہے۔ ان کی کمپنی ان چند کاروباری اداروں میں سے ایک ہے جنہوں نے فوری ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی سروس بند کر دی ہے کیوں کہ ان کا کاروباری ماڈل سماجی دوری اختیار کرنے کے فلسفے کے برعکس ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اگر شہر لاک ڈائون ہوتے ہیں تو کاروباری اداروں کو بند کرنے یا اپنے آپریشنز منسوخ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ کارپوریٹ ورکرز کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ ممکنہ طور پر گھروں میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہوں گے۔ سماج کے سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے طبقات کے تناظر میں، ہم ان کی آمدن میں بے روزگاری یا کم کام کی صورت میں واضح کمی دیکھیں گے۔

انہوں نے نجی شعبہ اور حکومت کے تعاون سے مشترکہ طور پر ریلیف فنڈ قائم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ اس تباہی کی شدت کو کم کیا جا سکے۔

ڈنس اینڈ براڈ سٹریٹ پاکستان ، جو کاروباری اداروں کو اعداد و شمار اور تجزیے فراہم کرتا ہے، کے کنٹری منیجر نعمان لاکھانی نے بھی مرکزی بنک کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی بنک اس سے زیادہ کر سکتا تھا جیسا کہ مارکیٹ میں امید بھی تھی اور دیگر معیشتوں نے اس کا عملی اظہار بھی کیا ہے۔  مختلف ملکوں نے شرح سود میں تاریخی کمی کی ہے جب کہ 75 بیسز پوائنٹ کی کمی ناموزوں ہے۔ پاکستان کو اس وقت غیر معمولی حجم کے معاشی امدادی پیکیج کی ضرورت ہے (وزیراعظم عمران خان آٹھ کھرب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کر چکے ہیں)۔

انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان آنے والے ہفتوں کے دوران شرح سود میں مزید کمی اور معاشی اقدامات کرنے کا اعلان کرے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دکانوں، کاروباری مراکز، دفاتر، بسوں، ٹرینوں اور بالخصوص چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی بندش کے معاشی بدحالی کے تناظر میں نہایت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم اپنی تجارت کے لیے بڑی حد تک چین پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر درآمد سے متعلقہ تجارت کے معیشت پر اثرات مرتب نہیں ہو رہے تو اس صورت میں انہیں حالات معمول پر آنے کے بعد روک دینا چاہئے تاکہ درآمدی بل کم ہو۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دلچسپ طور پر کاروباری ادارے اب بھی پرامید ہیں۔ پاکستانی لوگ اور پاکستانی کمپنیوں نے بہت سے معاشی ادوار دیکھے ہیں۔ ہم لوگ فلاحی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت زیادہ پرجوش ہیں۔ اگر ہم افغانستان کی اس وقت مدد کر سکتے ہیں جب وہ ہمارے ہم وطن بھی نہیں تھے تو مجھے حالیہ تاریخ میں یہ یاد نہیں کہ بھوک کوئی مسئلہ رہا ہے۔

حب لیدر کے مینجنگ ڈائریکٹر اسفند یار فرخ صارفین کی جانب سے وائرس کے باعث متوقع طور پر اپنے اخراجات میں کمی کرنے کے حوالے سے پریشان تھے۔ وہ بالخصوص اس وبا کے اثرات کے حوالے سے بھی پریشان تھے جو پہلے سے ہی مشکلات کا شکار ریٹیل سیکٹر پر مرتب ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوڈ اور میڈیکل مصنوعات کے علاوہ ملک بھر میں ریٹیل سیکٹر کے ریونیوز میں جزوی لاک ڈائون کے باعث ایک ہفتے کے دوران 50 فی صد سے زیادہ کمی آئی ہے اور سیلز جلد نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گی۔ ریٹیل سیکٹر سے بہت سے کاروبار منسلک ہوتے ہیں جن میں خام مال، ویونگ، رنگ سازی، سلائی، تیاری اور خدمات سے متعلق دیگر بہت سی کاروباری سرگرمیاں ایسی ہیں جو ریٹیل سیکٹر پر انحصار کرتی ہیں۔

 اسفند یار فرخ نے یہ بھی روشنی ڈالی کہ ریٹیل سیکٹر سے ملک کی مجموعی طور پر 16 فی صد ورک فورس منسلک ہے۔ اگر کوئی ریونیو ہی نہیں تو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن نہیں۔ اگر حکومت اور جاگیرداروں کی جانب سے کوئی نمایاں ریلیف فراہم نہیں کیا جاتا تو اس سیکٹر کی اکثریت دیوالیہ ہو سکتی ہے اور دیگر بہت سے شعبہ جات بھی اگلے چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران مشکل حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

وہ اگرچہ ایس بی پی کے حوالے سے بہت زیادہ پرامید ہیں، اور یہ سوچتے ہیں کہ نئی سرمایہ کاری کے لیے قرضوں کی فراہمی ایک خوش کن سوچ ہے اور مرکزی بنک کو فوری طور پر اپنی توجہ نئی سرمایہ کاری کے لیے قرضے جاری کرنے، جو ہونے کا امکان نہیں ہے، اپنی توجہ پہلے سے قائم کاروباری اداروں کی بندش اور ان کے ہمیشہ کے لیے بند ہونے سے قبل فی الفور صفر فی صد شرح سود کی صورت میں آسان قرضوں کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔

ملبوسات کے معروف برانڈ ماریہ بی کے ڈائریکٹر واصف سکندر بٹ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی تقریر حقیقت پر مبنی تھی۔ جیسا کہ ہم ایک ٹیکسٹائل برانڈ کے طور پر یہ ادراک رکھتے ہیں کہ ہزاروں لوگ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں اپنی روزمرہ ضروریات پورا کرنے کے لیے دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ اگر حکومت ان نہایت غریب لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی یقینی بناتی ہے، اور بعدازاں، دوسرے ملکوں سے سبق حاصل کرتی ہے تو ہمیں مختصر لیکن ایک مکمل لاک ڈائون کے ساتھ موثر انداز سے پیش آنا چاہئے۔

وہ تاہم، ریٹیل سیکٹر کے حوالے سے نہایت پریشان تھے۔ ریٹیل سیکٹر اس وقت مندی کا شکار ہے جب کہ کیش کا بہائو بالخصوص نان فوڈ اور گراسری سیکٹرز کی جانب ہو چکا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ریٹیل سیکٹر کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا بحران ہے۔ واصف سکندر بٹ کے مطابق، ملبوسات اور جوتوں کے کاروبار کی فروخت میں اس وقت 50 سے 70  فی صد کمی آ چکی ہے اور بہت سے کاروباری اداروں کے پاس نامناسب سیلز کے باعث تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی مناسب وسائل نہیں ہوں گے، آپ کرایے، ٹیکسز اور بنکوں کی ادائیگی کا ذکر ہی مت کیجئے۔ ہماری سپلائی چین جس میں سپننگ، ویونگ، پراسیسنگ اور ایمبرائیڈری شامل ہے، بندش کی جانب بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ لیکویڈیٹی کے حوالے سے درپیش بحران ہے اور ریٹیل سیکٹر کی جانب سے مزید آرڈرز کی وصولی میں کمی آنا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں حکومت کو لازمی طور پر مداخلت کرنی چاہئے۔ ہمیں دیگر ملکوں کی جانب سے ریٹیل کے کاروبار کی مدد کے لیے اعلان کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینا چاہئے جیسا کہ بیرونی حکومتوں نے کرایوں، ٹیکسوں اور یوٹیلیٹی بلوں میں چھوٹ دے دی ہے اور شرح سود کے بغیر قرض دیے ہیں۔ کاروباری اداروں کے مالکان ایک بار جب حکومتی مدد سے اپنے نقصانات میں کمی ہوتا دیکھیں گے تو کوئی کاروباری ادارہ بھی اپنے ملازمین کو ملازمت سے نہیں نکالے گا۔

مسعود ٹیکسٹائل ملز (پاکستان کی 10 ویں سب سے بڑی ٹیکسٹائل ایکسپورٹر) کے چیف ایگزیکٹو افسر شاہد نذیر نے کہا کہ ڈی ڈی ٹی فنڈز کا اجرا قابلِ ستائش تھا لیکن یہ نہایت ناموزوں تھا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ برآمدکنندگان کو زیرِالتوا سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے تناظر میں فنڈز جاری کرے۔ حکومت سے  کسی بھی قسم کی پیداوار کے بغیر ورکرز کو ادائیگیوں کے لیے بھی مدد درکار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایس بی پی متوقع طور پر شرح سود کو منجمد کر رہی ہے اور کمرشل بنکوں کو بھی ایکسپورٹرز سے بنیادی ادائیگیاں وصول کرنے سے روکا جائے۔

اپٹما پنجاب کے چیئرمین عادل بشیر نے کہا کہ وہ سٹیٹ بنک کے رویے کے باعث مایوس ہو گئے ہیں۔ آرڈرز کی منسوخی اور شپ منٹس میں تاخیر کے باعث انونٹریز میں اضافہ ہو گیا ہے اور ایکسپورٹ سیکٹر اس قدر شرح سود برداشت نہیں کر سکتا۔ ایس بی پی کو تین ماہ کے لیے  سود معاف کر دینا چاہئے اور کورونا وائرس کے حوالے سے حالات بہتر ہونے تک تمام ادائیگیاں ملتوی کر دی جائیں۔ شرح سود میں معمولی کمی اور انونٹریز کے یوں پڑے رہنے کے باعث بڑے پیمانے پر صنعتوں کی بندش کا عمل شروع ہو جائے گا۔

جعفر بزنس سسٹمز اور ایس ای سی پی کے پالیسی بورڈ کے رُکن وقار الاسلام یہ سوچتے ہیں کہ وزیراعظم کی تقریر متاثرکن تھی تاہم وہ لاک ڈائون کے مضمرات کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک مشکل مطالبہ ہے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ پاگل ہیں کیوں کہ آپ غریبوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کو بھوک اور بے روزگاری سے مار ڈالیں گے۔ آپ پاگل ہیں اگر آپ ایسا نہیں کرتے کیوں کہ مزید لوگوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ دو ہفتوں کا لاک ڈائون ایک مناسب تصور ہے لیکن یہ فیصلہ کیے جانے کی صورت میں غریبوں پر زیادہ توجہ دینا ممکن نہیں ہو گا۔

وہ مرکزی بنک کے حوالے سے بہت زیادہ پرجوش نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ میں شرح سود میں اس قدر معمولی کمی پر نہایت مایوس ہوا ہوں۔ دنیا بھر میں شرح سود میں نمایاں کمی کی گئی ہے تاکہ معیشت کو مدد فراہم کی جا سکے۔ یہ معمول کے دن نہیں ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسے حالات کا سامنا نہیں کیا۔ غیرمعمولی حالات میں آپ معمول کے فیصلے نہیں کرتے اور ہنگامی نوعیت کی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں۔

انہوں نے کاروباری اداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر چیز متاثر ہو گی۔ معاشی سست روی واضح ہے اور آپ اسے حقیقتاً ہمہ وقت محسوس کر سکتے ہیں۔ کاروباری ادارے ان مشکل حالات میں اپنی بقاء کے لیے اپنے اخراجات کم کریں گے، وہ بھرتیوں اور کسی بھی نوعیت کے توسیعی منصوبے میں تاخیر کریں گے۔ ملازمت سے نکالا جانا حقیقتاً ممکن ہے۔

لیکن کیا کسی قسم کی اختراع سازی کا امکان بھی ہے؟ وقار الاسلام نے کہا کہ ہم ایک نئے عہد میں چھلانگ لگا سکتے ہیں جس سے بچنے کے لیے ہم طویل عرصہ سے کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگر ہم کاروباری اداروں کے بارے میں بات کریں تو وہ آن لائن کام کر رہے ہیں، سکولز آن لائن تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں، صحت کا نظام بھی کچھ اسی طرح کام کر رہا ہے، حتیٰ کہ حکومت بھی جیسا کہ وزیراعظم ڈیجیٹل طور پر اجلاس کی صدارت کر رہے ہوتے ہیں۔ میں یہ دیکھنا پسند کروں گا کہ ہم اس بحران سے باہر آئیں تو یہ ہمارا طرز زندگی بن گیا ہو۔ ہم درحقیقت ضائع ہو چکی دہائیوں کا فاصلوں اگلے چند مہینوں میں طے کر سکتے ہیں اور دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے برابر آ سکتے ہیں۔

اے پی اے سی انوسٹمنٹس و آئی فائیو کیپیٹل کے سربراہ عمار حبیب ان معدودے چند ماہرین میں سے ایک ہیں جو ایس بی پی کو مثبت طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری اداروں کے مالکان سے گفتگو کے بعد 2019  میں کفایت شعارانہ اقدامات کے دوران غیرمعمولی شرح سود ان کے لیے بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ قرضوں پر کم شرح سود کو پرامید طور پر کاروبار کی توسیع میں معاون ہونا چاہئے۔

وہ بھی معیشت پر لاک ڈائون کے اثرات کے حوالے سے متضاد رائے رکھتے ہیں۔ آپ کاروبار کو جتنا زیادہ لاک ڈائون کرتے ہیں تو معیشت بھی اس قدر ہی متاثر ہوتی ہے۔ اگر آپ زیادہ لاک ڈائون نہیں کرتے تو ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ آپ ایک شہری کے طور پر یہ امید رکھئے کہ حکومت درست فیصلے کر رہی ہے۔

آگے بڑھتے ہیں: پرافٹ کی وبا کے دنوں میں کاروباری بقاء کے لیے رہنمائی

اگرچہ کورونا وائرس سے بچائو کے 97 فی صد امکانات موجود ہیں لیکن کاروباری سرگرمیوں کے بارے میں ایسا کہنا ممکن نہیں۔ کاروباری مالکان کے بہترین مفاد میں یہ ہے کہ وہ اس تباہ کن پیشگوئی پر یقین ہی نہ کریں اور اپنے کاروبار کو حالات کے مطابق ڈھالیں۔

کورونا وائرس کے ممکنہ طور پر اگلے کئی برسوں تک موجود رہنے کے امکانات ہیں اور یہ امکان بھی ہے کہ مستقبل میں یہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ظاہر ہو۔ انہی وجوہ کے باعث کاروباری اداروں کو خود کو ان حالات کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروباری اداروں کو محض اپنے اخراجات ہی کم کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھنا ہو گا بلکہ معیشت کے بیرونی اخراجات بھی کم کرنے ہیں۔

لہٰذا، ایک پاکستانی بزنس مین کو عالمی معاشی بحران کا سامنا کرنا ہے جو وبا کے باعث شدت اختیار کر گیا ہے؟ ملٹی نیشنل فرم پرائس واٹر ہائوس کوپرز کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کے مطابق، کاروباری اداروں کو ان نکات پر عمل کرنا چاہئے:

منصوبہ

بدترین حالات کو پیشِ نظر رکھا جائے اور اس کے مطابق منصوبہ تشکیل دیا جائے۔ اگرچہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا آسان ہو گا لیکن اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر تیاری کرنے کے حوالے سے منصوبہ آپ کی کمپنی کو ان مشکل حالات میں ایک سمت فراہم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس سے آپ کی عملے کے ارکان کو رخصت پر بھیجنے کے اصولوں اور ان کوششوں کے تناظر میں مدد حاصل ہو گی جو آپ کریں گے۔

خطرات کا اندازہ لگانے کے لیے متاثرہ افراد کی تعداد، اموات اور صحت یاب ہونے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں آگاہ رہئے تاکہ آپ کو حالات کے بارے میں معلوم ہو اور آپ اس کے مطابق منصوبے تشکیل دے پائیں۔ یہ ادراک کیجئے کہ حالات کہاں خراب ہیں اور اخراجات میں کمی کرنے کے تناظر میں کیے جا رہے اقدامات مددگار ثابت ہوں گے یا نہیں۔ یہ تحقیق آپ کو حکومت کی جانب سے عائد کی جا رہی پابندیوں اور ریلیف کی فراہمی کے بارے میں آگاہ رکھے گی۔

اس مسئلے سے پیش آنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حالات کے بارے میں آگاہ رہا جائے۔ بیماری کے مضمرات سے مقابلہ کرنے کے لیے رفتار بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کاروباری اداروں کو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اب اپنی پالیسیوں اور منصوبہ سازی کے حوالے سے فعال رہنے کی ضرورت ہے۔

گھر سے کام کیجئے

اس سے قطع نظر کہ آپ کی گھر سے کام کرنے کی پالیسی ہے یا نہیں، اس تجربے کی جانچ کا اس سے بہتر وقت کون سا ہو سکتا ہے جب حکومت سماجی تنہائی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے؟ اس کا انحصار صنعت اور کام کی نوعیت پر ہے، ٹیکنالوجی کے ارتقاء کے باعث عملے کے ارکان کے لیے گھر سے کام کرنا آسان ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں:

کورونا وائرس عالمی معیشت کو دو کھرب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے: اقوامِ متحدہ

کورونا وائرس پاکستان کی معیشت کیلئے کس حد تک تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے؟

یہ تجویز دی گئی ہے کہ عملے کے وہ ارکان جو گھر سے کام کر سکتے ہیں، انہیں گھر سے ہی کام کرنا چاہئے۔ اس اقدام سے ان کے وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو جائے گا اور یوں، اس کا پھیلائو رُک جائے گا۔

اپنے ملازمین کو محفوظ رکھیں

ایک کاروبار اس وقت موثر انداز سے کام نہیں کر سکتا جب اس کے عملے کے ارکان مہلک وائرس کی زد پر ہوں۔ اگرچہ عملے کے ارکان کا تحفظ ہی آپ کا واحد مقصد نہیں ہونا چاہئے، کاروباری اداروں کو یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ملازمین جو گھروں سے کام نہیں کر سکتے، ان کو کام کے لیے محفوظ حالات فراہم کیے جائیں۔ جراثیموں کو مارنا اور ہاتھوں کے لیے سینیٹائزرز کی فراہمی نہایت اہم ہے۔

روزانہ کی بنیادوں پر میزوں، فرش، دروازوں کے قبضوں وغیرہ کو سینیٹائز کیا جائے اور جراثیم کش سپرے کرنا بھی لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان اصولوں کو بھی لاگو کیا جائے جن کے تحت میٹنگ کرنے کی ضرورت ختم ہو سکے اور مصافحہ کرنے، تیز بخار یا بغل گیر ہونے وغیرہ پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔

ملازمین کاروباری اداروں کی جانب سے ان کے تحفظ اور صحت کے لیے کیے جانے والی غیر معمولی کوششوں کو سراہیں گے بلکہ ان کے ذہن بھی وائرس سے متاثر ہونے کے خدشات سے آزاد ہو جائیں گے۔

معلومات کا موثر بہائو

تذبذب اور غیریقینی صورتِ حال کی فضا کو ختم کرنے کے لیے منیجرز اور بعدازاں ملازمین کو بروقت معلومات فراہم کی جائیں جس سے ناصرف پیداواری صلاحیت بہتر ہوگی بلکہ قوم کو درپیش مشکل ترین وقتوں میں ان کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

حکومت کی جانب سے فراہم کردہ ریلیف کا استعمال

حکومت متعدد پالیسیوں پر کام کر رہی ہے جو کاروباری سرگرمیوں کے لیے مشکلات پیدا ہونے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ جیسا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان معیشت پر اثرات کم کرنے کے حوالے سے مختلف اقدامات کر رہی ہے، کاروباری ادارے اب بنکوں کے ساتھ شرح سود پر بات کر سکتے ہیں۔

سرمایے کو منتظم کرنا

اگر آپ اپنے قلیل المدتی کیش کے بہائو کے حوالے سے اندازوں کو مناسب طور پر استعمال میں نہیں لاتے تو یہ اس حوالے سے بہترین وقت ہے۔ تین ماہ کے کیش کے بہائو کے حوالے سے اندازہ مرتب کرنے کے باعث آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والی کمی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے میں مدد حاصل ہو سکتی ہے۔ اس سے آپ کو قبل از وقت اقدام کرنے کا موقع ملتا ہے اور آپ نقصان کی تلافی کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

مزیدبرآں، کاروباری اداروں کو ایسا کرنے کے باعث ناصرف یہ سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ ان کو کب کیش جمع کرنے کی ضرورت ہو گی اور وہ بہتر طور پر اپنے شراکت داروں اور شیئرہولڈرز کو آگاہ رکھ سکیں گے۔

ہنگامی حالات کے تناظر میں ترجیحی بنیادوں پر ادائیگیاں بھی نہایت اہم ہیں۔ یہ شناخت کریں کہ کون سی ادائیگی پہلے کرنا اہم ہے تاکہ سپلائی کے تناظر میں مزید دھچکوں سے بچا جا سکے۔

کاروباری اداروں کو اضافی اثاثوں کی شناخت کرنے کی ضرورت بھی ہے جو اس وقت ان کے پاس موجود ہیں تاکہ بروقت لیکویڈیٹی کی ضرورت پوری ہو سکے۔

سپلائی چین

اپنی انونٹری کو مدِنظر رکھتے ہوئے مناسب وقت کا تعین کریں۔ کاروباری ادارے اس مقصد کے لیے متعلقہ ماڈلز استعمال کر سکتے ہیں۔ مزیدبرآں، ہنگامی حالات سے پیش آنے کے لیے آپ کو متبادل سپلائرز اور خام مال کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہو گی جو پیداواری عمل میں استعمال ہو سکتا ہو۔

اگر آپ درآمد کرتے ہیں تو آپ کو نئے سرحدی قوانین ذہن میں رکھنا ہوں گے اور یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ ملک میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔

فروخت کی حکمتِ عملی

کاروباری ماحول کے پیش نظر آپ کو اپنی فروخت کی حکمتِ عملی اور صارفین کی خریداری کی صلاحیت کے حوالے سے نظرثانی کرنا ہو گی۔ بزنس میں رہنا ایک دیرپا معاملہ ہے اور انہی وجوہ کے باعث، کاروباری اداروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے حالات میں صارفین کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا ادارے کے بہترین مفاد میں ہے۔

کارپوریٹ سماجی ذمہ داری

کاروباری اداروں کے پاس اس وقت یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اب سماج کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پورا کریں۔ وہ ادارے جو جراثیم مارنے والی اور سینیٹری مصنوعات تیار کرتی ہیں، وہ اپنی کچھ مصنوعات سماج کے ارکان کو فراہم کر کے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

اعداد و شمار میں یکجائی

موجودہ حالات کے حوالے سے کاروباری سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے اعداد و شمار میں یکجائی پیدا کرنے کے حوالے سے حالیہ دنوں سے بہتر وقت کون سا ہو سکتا ہے؟ اپنے فنانسز، سیلز، سپلائی چین اور صارفین کے رویے کے بارے میں ادراک کے لیے اعداد و شمار کے ماڈلز تشکیل دیں جن سے ناصرف وائرس کو شکست دینے میں مدد حاصل ہو گی بلکہ آپ کو کاروبار میں برتری بھی حاصل ہو گی۔

حسن نقوی کی جانب سے اضافی رپورٹنگ کے ساتھ۔۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here