اسلام آباد: ملک بھر میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے باعث لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی طلب میں کمی آئی ہے اور طلب نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے قطر سے ماہانہ بنیادوں پر ایل این جی کی درآمد میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں ایل این جی کی ڈیمانڈ میں کافی کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں حکومت نے اس ماہ صرف قطر کی پانچ میں سے تین متفقہ ایل این جی کارگوز سے گیس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اگرچہ حکومت نے قطر سے ایل این جی کی سپلائی طلب نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کرنے کی خواہش کی ہےتاہم متفقہ ایل این جی کی مقدار سے کمی کی وجہ سے پاک قطر ایل این جی ملین ڈالرز کے معاہدے میں رکاوٹ نہیں ہو گی۔
ذرائع نے کہا کہ حکومت نے قطر کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اپریل میں تین کارگوز سے ایل این جی درآمد کرے گی جبکہ مئی کے مہینے میں ایل این جی کی درآمد کا فیصلہ رواں ماہ کے آخر میں کیا جائے گا۔
پاکستان قطر سے طویل المدت معاہدے کے تحت برینٹ کروڈ(زیادہ تر 6ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو) کی تقریباََِ 13.37 فیصد مہنگی خریدتا رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان ایل این جی کی درآمد تاخیر کرنے پر ماہانہ 10 ارب روپے بچا سکتا ہے، ایک اندرونی ذرائع نے وضاحت کی کہ “ملک دو کمپنیوں سے ایل این جی کی خرید بغیر کسی جرمانے کے تاخیر کر سکتا ہے ایل این جی کی خرید کے معاہدے میں دو صورتیں ہیں جن کے تحت پاکستان کورونا وبا کی صورت میں یا قرنطینہ کی پابندیوں کے باعث ایل این جی کی خرید تاخیر کر سکتا ہے”۔
ذرائع نے مزید کہا کہ ایل این جی کارگو کمپنیاں اینی (Eni) اور گنور (Gunvor) سے مذکورہ گیس 5.5 ڈالر سے 6 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو خریدی گئی جبکہ عالمی منڈی میں ایل این جی کی قیمت 1.5 ڈالر سے 2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر دستیاب ہے۔
اسی دوران ملک کے توانائی ماہرین کے مطابق پاکستان کو جلد اینی اور گنور سے ایل این جی کی خرید تاخیر یا منسوخ کر دینی چاہیے تاکہ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا بوجھ کم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایل این جی سپلائرز سے گیس کی خریداری بحال کر سکتا ہے اور حتیٰ کہ گیس کی طلب میں جب اضافہ ہو تو عالمی منڈی سے گیس کم قیمت پر خرید سکتا ہے۔