اگر آپ ایک پاکستانی خاتون ہیں اور آپ کے پاس بینک اکاؤنٹ ہے تو آپ کو مبارک ہو !
آپ پاکستان کی چند خوش قسمت خواتین میں سے ایک ہیں، ہمارے ملک میں خواتین کی مالیاتی نظام میں شمولیت کے اعداد و شمار بدترین شمار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں محض 17 فیصد خواتین کے بینک اکاؤنٹس ہیں ، ان اعداد و شمار کے غیر معمولی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ حال ہی میں کراچی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر ان اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے کافی شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔
’’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ گورنر سٹیٹ بینک نے حاضرین سے سوال کیا جبکہ اس کی نسبت جنوب ایشیائی خطے میں خواتین کے بینک اکائونٹس کا تناسب 64 فیصد ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس کی وجہ مسلم روایات ہیں تو یہ بات غلط ہے۔ بہت سے مسلم ممالک میں یہ تناسب 60 فیصد ہے جبکہ ایران میں 90 فیصد خواتین کے ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
یہ بات شاید زیادہ ہی مایوس کن ہے۔ لیکن گزرے سالوں میں پاکستانی خواتین کے بینک اکائونٹس کے حوالے سے قدرے بہتری آئی ہےکیونکہ 2015ء میں یہ تناسب 11 فیصد جبکہ 2008ء میں محض چار فیصد تھا۔
پرافٹ اردو کی جانب سے اس لئے یہ اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ نہ صرف موجودہ دور میں بلکہ ماضی میں بھی بینکنگ انڈسٹری کی نظر میں پاکستانی خواتین کہاں کھڑی ہیں۔
2000ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے قائم کردہ کمیشن کے ایک پرانے بریفنگ پیپر میں پاکستان میں خواتین کو عام مالیاتی اداروں میں درپیش مسائل کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ ’’کمرشل بینک خواتین کے مرد وں پر انحصار جیسے نسل پرست اور دقیانوسی خیالات کے باعث خاتون صارفین کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں قرضوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ٗ
اندھیرے میں روشنی کی کرن 1989 میں قائم ہونے والا فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ (FWBL) ہے ، یہ واحد بینک ہے جو پاکستان میں خواتین کو چھوٹے درجے کے قرضہ جات فراہم کرتا ہے۔
آپ میں جس کی نظر سے 90ء کی دہائی میں سلائی مشینوں پر کام کرتی دیہاتی خواتین کے اشتہارات گزرے ہوں گے وہ اس بینک کے بارے میں جانتا ہوگا۔ یہ کم معروف بینک نسبتاََ چھوٹا ہے لیکن جدید اصولوں پر قائم کیا گیا ہے۔ (جو خواتین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کیلئے کوشاں ہے)۔
لیکن دیگر بینکوں سے پہلے فرسٹ ویمن بینک موجود تھا، جب لوگوں میں ’خواتین کیلئے مائیکروفنانس کے فوائد‘ کے حوالے سے شعور اجاگر ہوا تب بھی فرسٹ ویمن بینک موجود تھا۔ فِنکا اور اخوت سے بھی پہلے فرسٹ ویمن بینک موجود تھا ۔ اپنے آغاز سے اب تک یہ بینک 51 ہزار 661 خواتین صارفین کو 66 ارب 66 کروڑ 20 لاکھ روپے کے قرضہ جات فراہم کر چکا ہے جبکہ اس بینک کے پاس 90 ہزار سے زائد صارفین کے سیونگ اکاؤنٹس ہیں۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ فرسٹ ویمن بینک اتنا اہم کیوں ہے جبکہ گزشتہ دہائی میں اس کی شرح ترقی بالکل متاثر کن نہیں رہی لیکن کئی سالوں کی خراب کارکردگی کے بعد گزشتہ سال فرسٹ ویمن بینک ایک معقول منافع حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
پرافٹ اردو نے اس حوالے سے فرسٹ ویمن بینک کی چیف ایگزیکٹو آفیسر نوشابہ شہزاد سے گفتگو کی جنہیں اس عہدے پر اکتوبر 2018ء میں تعینات کیا گیا۔
لیکن پہلے بینک کی تاریخ پر ایک نظر
فرسٹ ویمن بینک کا آغاز 21 نومبر 1989ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور مقبول ترین شخصیت بینظیر بھٹو نے کیا۔
انہوں نے 2 دسمبر کو بینک کے کاروباری سرگرمیوں کے آغاز کے موقع پر کہا ’’آئیے ویمن بینک کو ایک اسلامی معاشرے کے رسم و رواج کی حدود میں رہتے ہوئے مسلم خواتین کو معاشی خودمختاری کے حصول میں مدد اور کیریئر کے حوالے سے حوصلہ افزائی کا بانی ادارہ بنائیں۔‘‘
فرسٹ ویمن بینک نے جلد ہی اپنے کام کا آغاز کر دیا۔ اس بینک کا اصول بہت سادہ تھا کہ یہ بینک (مائیکرو، سمال، میڈیم اور کارپوریٹ) ہر سطح پر خواتین کو سہولیات فراہم کرے گا۔ یہ پاکستان میں مائیکرو کریڈٹ متعارف کروانے والا پہلا کمرشل بینک تھا۔
اس بینک کی کریڈٹ پالیسیاں دیگر بینکوں کی نسبت کچھ الگ تھیں۔ یعنی وہی کاروباری ادارے قرضے لینے کے اہل ہوں گے جن میں 50 فیصد شئیرز ایک خاتون کے پاس ہوں، یا ایک خاتون ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر ہو یا پھر وہاں کام کرنے والوں میں نصف تعداد خواتین کی ہو۔
فرسٹ ویمن بینک کے پاس ابتدائی طور پر 10 کروڑ روپے کا سرمایہ تھا۔ اس میں سے 90 فیصد اس وقت کے پانچ سرکاری بینکوں (نیشنل بینک آف پاکستان، حبیب بینک، مسلم کمرشل بینک، یونائیٹڈ بینک اور الائیڈ بینک) کی جانب سے جبکہ بقیہ 10 فیصد وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا۔
اگرچہ پاکستان میں کوئی بھی کمرشل بینک چلانے کیلئے ابتدائی طور پر درکار سرمایہ 10 ارب روپے ہے لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے فرسٹ ویمن بینک کیلئے ان شرائط میں نرمی کرتے ہوئے اس رقم کی حد 3 ارب روپے کر دی۔
اس بینک کی پہلی صدر مسلم کمرشل بینک کی سابق بینکر اکرام خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے بعد مسلم کمرشل بینک سے ایک جونیئر بینکر طاہرہ رضا کو بھی راضی کر لیا اور اس اقدام کے نتائج بعد میں دیکھنے کو ملے۔
پشاور یونیورسٹی کی گریجوایٹ طاہرہ رضا نے اپنی گریجوایشن مکمل ہوتے ہی 1975ء میں ایم سی بی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ایم سی بی کی پشاور برانچ میں انہوں نے پہلی نوکری بحیثیت اینٹری لیول آفیسر کی جہاں وہ چیک اور روزمرہ کے کھاتوں کا نظام سنبھالتی تھیں۔
تاہم سال گزرتے گئے اور وہ بتدریج اس بات پر مزید نالاں ہوتی گئیں کہ ان کے ہم عصر مرد اُن سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے جبکہ ان کی ترقی (اور تنخواہ) میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا۔ اسی اثناء میں انہیں خواتین پر مبنی ادارے کا حصہ بننے کا موقع ملا اور وہ فرسٹ ویمن بینک کی معاون نائب صدر تعینات ہو گئیں۔ انہوں نے اس بینک میں کریڈٹ ڈیپارٹمنٹ بھی قائم کیا۔ (اس کی تفصیلات بعد میں تحریر کی گئی ہے)
جب لوگ عموماََ فرسٹ ویمن بینک کا حوالہ دیتے ہیں تو ذہن میں دو نام ابھرتے ہیں طاہرہ رضا جن کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور شفقت سلطانہ۔
شفقت سلطانہ نے بھی طاہرہ رضا کی طرح 1975ء میں ہی لیکن یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ 1988ء میں وہ راولپنڈٰی کے پرل کانٹی نینٹل میں واقع یو بی ایل کی برانچ میں بحیثیت منیجر اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی جب انہیں بھی فرسٹ ویمن بینک میں معاون نائب صدر کے عہدے کی پیشکش کی گئی۔ ان کی پہلی ذمہ داری راولپنڈی میں فرسٹ ویمن بینک کی برانچ کا قیام تھا۔
شفقت سلطانہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں برانچ ایکسپرٹ بنا دیا گیا۔ 1990ء سے 2001ء تک انہوں نے اسلام آباد میں تعیناتی کے دوران خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں اس فرسٹ ویمن بینک کی 13 شاخیں قائم کیں اور اس کے بعد 2001ء سے 2009ء تک سندھ میں تعیناتی کے دوران انہوں نے مزید 15 شاخوں کا اضافہ کیا۔
2009ء میں شفقت سلطانہ فرسٹ ویمن بینک کے صدر کے عہدے پر تعینات ہوئیں جہاں انہوں نے 2014ء تک اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا۔ بطور صدر ان کی پہلی ذمہ داری ڈی سینٹرلائزیشن پالیسی کا آغاز تھا۔ اس سے قبل بینک کی شاخوں کو 4 سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا تھا جن کا انتظام 3 ریجنل چیف آفیسر سنبھالتے تھے۔ اس کی بجائے شفقت سلطانہ نے منیجرز کو مختلف علاقوں میں 4، 4 شاخوں کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت کی۔
شفقت سلطانہ کے دور میں ہی یہ بینک مکمل طور پر پبلک سیکٹر فنانشل انسٹیٹیوٹ بن گیا۔ جب 5 میں سے 4 بڑے سرکاری بینکوں کی نجکاری کی گئی تو فرسٹ ویمن بینک کے حصص بھی سرکاری سے نجی افراد اور اداروں کے پاس آگئے۔ 2010ء میں مسلم کمرشل بینک کے اس میں 26.8 فیصد حصص، حبیب بینک کے 25.32 فیصد، نیشنل بینک آف پاکستان کے 8.93 فیصد، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے 8.93 فیصد، الائیڈ بینک لمیٹڈ کے 8.96 فیصد اور وزارت برائے بہبود نسواں کے 19.62 فیصد حصص تھے۔
اِس وقت وزارت داخلہ کے پاس اس بینک میں 82.64 فیصد حصص ہیں۔ حبیب بینک کے پاس 5.78 فیصد، مسلم کمرشل بینک کے پاس 5.78 فیصد، الائیڈ بینک کے پاس 1.94 فیصد، نیشنل بینک آف پاکستان کے پاس 1.93 فیصد اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے پاس 1.93 فیصد حصص ہیں۔
لیکن تمام تر تبدیلیوں کے باوجود فرسٹ ویمن بینک کی ترقی کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار رہی۔ ذرا سوچئے جب شفقت سلطانہ نے 1989ء میں آغاز کیا تو فرسٹ ویمن بینک کی پاکستان بھر میں 5 شاخیں موجود تھیں۔ 1993ء میں ان کی تعداد 23 تک جا پہنچی۔ لیکن 2010ء میں بینک کی شاخوں کی تعداد صرف 38 تھی اور جب 2014ء میں شفقت سلطانہ نے اس بینک کو خیرباد کہا تو اس بینک کی ملک بھر میں صرف 41 شاخیں تھیں۔ شفقت سلطانہ کے دور میں بینک نے اعلان کیا کہ 2012ء میں قبل از ٹٰیکس منافع 9 کروڑ 50 لاکھ روپے رہا لیکن 2013ء میں 22 کروڑ 20 لاکھ روپے کا قبل از ٹٰیکس خسارہ بھی دیکھنے میں آیا۔
اس کے بعد طاہرہ رضا کو اس صدر کے عہدے کی پیشکش کی گئی۔ انہوں نے 2003ء میں فرسٹ ویمن بینک کو چھوڑ کر نیشنل بینک آف پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ انہیں 2012ء میں نیشنل بینک آف پاکستان کے سینئر نائب صدر کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا جسے چھوڑ کر وہ 2014ء میں فرسٹ ویمن بینک کی صدر مقرر ہوئیں۔ طاہرہ رضا کے دور میں فرسٹ ویمن بینک میں 420 افراد ملازمت کرتے تھے جن میں خواتین کی تعداد 290 تھی۔ اس بینک کے ایک لاکھ اکاؤنٹس میں سے 68 فیصد اکاؤنٹ ہولڈر خواتین تھیں۔ اس کے علاوہ انہی کے دور میں اس بینک نے 2016ء میں یہ فیصلہ کیا کہ مردوں کو بھی قرضوں کی فراہمی کی جائے گی۔
طاہرہ رضا کے دور میں کچھ مایوس کن مالیاتی رپورٹس بھی دیکھنے میں آئیں جن میں سب سے مایوس کن رپورٹ 2018ء کی تھی۔ مالیاتی دستاویزات کے مطابق 2014ء میں اس بینک کے قبل از ٹیکس خسارہ کا حجم 66 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا۔ اس کے بعد حالات کچھ بہتر ہوئے اور 2015ء میں قبل از ٹٰیکس منافع 3 کروڑ 40 لاکھ روپے جبکہ 2016ء میں 40 لاکھ روپے رہا اور اس کے بعد 2017ء میں ایک مرتبہ یہ بینک تنزلی کا شکار ہوا اور قبل از ٹیکس خسارہ 11 کروڑ 60 لاکھ روپے ہو گیا۔
ابھی تک دستیاب مالیاتی اعداد و شمار کے مطابق 30 ستمبر 2018ء تک اس بینک کا قبل از ٹیکس خسارہ 10 کروڑ 54 لاکھ روپے تھا۔ (جبکہ گزشتہ سال اس کا قبل از ٹیکس خسارہ 13 کروڑ 90 لاکھ روپے تھا۔)
عدم وصول کردہ قرضہ جات (NPL-Non-Performing Loans) کی شرح بھی اس دوران انتہائی بلند رہی۔ 2013ء میں ان کا حجم 76 کروڑ 30 لاکھ روپے، 2014ء میں ایک ارب 40 کروڑ روپے اور 2016ء میں سب سے زیادہ ایک ارب 96 کروڑ روپے رہا۔ 30 ستمبر 2018ء کو ختم ہونے مالی سال میں نان پرفارمنگ لون کا حجم ایک ارب 70 کروڑ روپے تھا۔ این پی ایل (نان پرفارمنگ لون )کی مد میں یہ بینک صرف 17 کروڑ 84 لاکھ روپے ہی ریکور کر سکا ہے۔ (2017ء میں اس بینک نے ایک ارب 60 کروڑ روپے کے نان پرفارمنگ لون میں سے 20 کروڑ 10 لاکھ روپے ریکور کئے۔)
2017ء اور 2018ء میں اس بینک کو بند کر دینے کی خبریں بھی سامنے آئیں ۔
نوشابہ شہزاد کا دور
نوشابہ شہزاد کا تعلق فرسٹ ویمن بینک سے کافی پرانا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ایم بی اے کی ڈگری اور پنجاب یونیورسٹی سے شماریات (statistics) میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی نوشابہ شہزاد کو اس بینک سے جڑے 25 برس گزر چکے ہیں۔ اس میں سے بیشتر وقت وہ رسک منیجمنٹ ڈویژن، فنانشل سروسز ڈیسک اور بینک کے کریڈٹ پورٹ فولیو کی سربراہ رہیں۔ ان کے دور میں بینک کے کریڈٹ پورٹ فولیو میں 3 گنا اضافہ ہوا جبکہ کلاسیفائیڈ پورٹ فولیو کم ہو کر 1.5 فیصد رہ گیا۔
