لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ، بنکوں کو اب دیوالیہ قرض دہندگان کی رہن شدہ پراپرٹی ضبط کرنے کے لیے عدالتی احکامات کی ضرورت نہیں

اس فیصلے کے پاکستان میں پراپرٹی رہن رکھ کر قرضہ لینے کے رجحان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ یہ فیصلہ آپ کے قرض لینے کی اہلیت پر کس طرح اثرانداز ہو گا اور کیا اب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی؟

1976

10 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ نے رہن رکھی گئی پراپرٹی کے حوالے سے 103 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا، یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو پاکستان میں پراپرٹی کو رہن رکھ کر قرض لینے کے رجحان کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے اور یہ ایک متنازعہ فیصلہ بھی ہے۔

مختصراً، 2016 میں متعارف کروائے گئے بنکنگ قوانین میں کی گئی ترامیم کے حوالے سے فیصلہ سنایا گیا جن کے تحت بنکوں کو دیوالیہ ہونے والے قرض دہندگان کی رہن رکھی گئی جائیداد کورٹ سے احکامات وصول کیے بغیر نیلام کرنے کی اجازت مل گئی تھی، عدالت نے اب اس فیصلے کو آئین کے مطابق قرار دے دیا ہے۔

عدالت نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے کیا اصول مدِنظر رکھے؟ قانون کو قبل ازیں لاگو ہی کیوں کیا گیا اور بعدازاں اسے چیلنج کر دیا گیا؟ یہ ان قرض دہندگان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے جنہوں نے اپنی پراپرٹی رہن پر رکھ کر قرض حاصل کیا؟ اور اس کے ملکی ہائوسنگ مارکیٹ اور وسیع تر تناظر میں رہن یا مارٹگیج فنانس انڈسٹری پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ان تمام سوالات کے جواب اس قانون کی شق میں موجود ہیں جو قریباً دو دہائیاں قبل تشکیل دیا گیا، یہ معاشی اداروں (فنانس کی واپسی) کے آرڈیننس 2001 کی شق نمبر 15 ہے۔

پرافٹ نے مختلف حصوں میں عدالتی فیصلے کا جائزہ لیا ہے اور مقدمے کے دونوں فریقین درخواست گزار اور مدعا علیہ سے اس مقدمے کے بارے میں بات کی ہے تاکہ مزید معلومات حاصل ہو سکیں۔ ہم نے  فیصلے کے حوالے سے معاشی تناظر بھی شامل کر دیا ہے تاکہ یہ سمجھنے میں مدد حاصل ہو سکے کہ اس کے ممکنہ طور پر ملکی ہائوسنگ اور فنانشل سیکٹرز پر کیا اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں۔

شق نمبر 15 آخر ہے کیا؟

معاشی اداروں (فنانسز کی ریکوری) کا آرڈیننس 2001 مشرف کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی لاگو کر دیا گیا تھا جب اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز پاکستان کے ریگولیٹری ڈھانچے کی تجدید کرنے کے حوالے سے کوشاں تھے تاکہ ملکی قرضوں کی مارکیٹ بہتر طور پر کام کر سکے جسے 1997 کے بنکنگ کمپنیز (قرضوں، ایڈوانسز، کریڈٹس اور فنانسز) ایکٹ کی جگہ پر لاگو ہونا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ نے بینکوں کے لیے رہن شدہ پراپرٹی کی نیلامی قانونی قرار دے دی 

یہ قانون بنیادی طور پر اس لیے تشکیل دیا گیا تاکہ بنکنگ سیکٹر کو درپیش بنیادی مسئلے کو حل کیا جائے: قرضہ جاتی معاہدہ کس طرح ایسے قرض دہندہ کے خلاف لاگو کیا جائے جو قرض دینے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پورا کرنے میں ناکام رہا ہو اور ایسا کس طرح جلد اور نہایت کم لاگت میں کیا جائے؟

یہ قانون تشکیل دیتے ہوئے دو پہلو پیش نظر رکھے گئے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: ایک قرض لینے والے سے اور دوسرا قرض دینے والے سے متعلق ہے۔ قرض دینے والے کے لیے معاملات نہایت آسان ہو جانے کے باعث یہ امکانات پیدا ہو گئے کہ وہ قرض دہندہ سے نہایت استحصالی رویہ اختیار کر لیتا اور وقت کے ساتھ قرض لینے کی طلب میں کمی آ جاتی۔ تاہم، تصویر کے دوسرے رُخ کا جائزہ لیا جائے تو قرض دینے والے ان لوگوں کو قرض دینے کے لیے تیار نہ ہوتے جو شرائط پر پورا نہیں اترتے تھے جس کے باعث ملک بھر میں قرض دینے کی شرح اور معاشی سرگرمیاں غیر معمولی طور پر کم ہو گئیں۔

2001 کے آرڈیننس سے قبل قانون بہ ظاہر قرض دہندہ کے حق میں تھا جو بنکوں کو مجبور کرتا کہ وہ دیوالیہ ہونے والوں سے پراپرٹی کا قبضہ حاصل کرنے سے قبل کورٹ میں اس کے خلاف مکمل قانونی کارروائی کریں، یہ ایک ایسا عمل تھا جس پر ایک ہی قرض نادہندہ کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے میں برسوں لگ جاتے اور بنکوں کا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا۔

2001 میں ایک بنکار وزیرِ خزانہ کی جانب سے لاگو کیے گئے آرڈیننس کو کچھ یوں تشکیل دیا گیا تھا کہ بنکوں کے لیے دیوالیہ ہونے والوں کی جائیداد کا قبضہ لینا اور اسے فروخت کرنا آسان ہو گیا جس کے لیے اب انہیں عدالتی احکامات کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس ایک قانون کے باعث بنکوں کے لیے خطرات نہایت کم ہو گئے اور یوں ان کے لیے صارفین کو قرض دینا آسان ہو گیا۔

2001 کے قانون میں 29 شقیں ہیں جس میں سے شق نمبر 15 بنکوں کو رہن شدہ جائیداد فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن ایسا صرف صارف کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ رہن شدہ جائیداد اس معاملے میں ایسی کوئی بھی غیر منقولہ جائیداد ہے جو معاشی ادارے جیسا کہ بنک کو رہن رکھی جائے۔

مذکورہ سیکشن 10 دسمبر 2013 تک لاگو رہی جب پاکستان سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2001 میں جاری کیے گئے آرڈیننس کی شق نمبر 15 کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا یا ایک ایسا عمل قرار دیا جو قانونی طور پر اختیارات یا آئینِ پاکستان سے تجاوز تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ شق نمبر 15 میں قرض دہندگان کے لیے موزوں تحفظ شامل نہیں ہے اور نہ ہی یہ قرض دہندگان کو رہن رکھے جانے کے عمل کے نفاذ کے دوران موزوں حل فراہم کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی ریٹنگ ایجنسی نے ’’گرے لسٹ ‘‘میں رہنا پاکستانی بینکوں کیلئے منفی قراردے دیا

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان آرڈیننس میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے فی الفور حرکت میں آیا۔ اس نے فیصلے اور بنکوں کی ضروریات کی روشنی میں تاکہ وہ خطرات کم کرتے ہوئے قرض دینا جاری رکھ سکیں، ترامیم میں تبدیلی کا عمل شروع کیا۔ ان کوششوں کے باعث ہی فنانشنل انسٹی ٹیوشنز (ریکوری آف فنانسز) (ترمیمی) بل 2015 ڈرافٹ کیا گیا۔

اس بل میں آرڈیننس کی آٹھ مختلف شقوں میں ترامیم کی گئیں لیکن سب سے نمایاں تبدیلی سیکشن 15 میں کی گئی جس میں تین ذیلی شقوں کا اضافہ کیا گیا اور کم از کم دو ذیلی شقوں کی زبان نمایاں طور پر تبدیل کی گئی۔ فنانشل انسٹی ٹیوشنز (ریکوری آف فنانسز) ترمیمی ایکٹ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو گیا اور اگسست 2016 میں یہ ایک قانون بن گیا۔

بل کے پاس ہوتے ساتھ ہی اس کی مخالفت میں شور مچ  گیا۔  لاہور ہائی کورٹ کے بنچ نے قانون کی نئی آئینی شق 15 کے نفاذ کو کالعدم قرار دے دیا جب کہ اس معاملے پر عدالت میں مقدمہ بازی جاری ہو گئی۔

یہ معاملہ نومبر 2019 تک عدالت میں زیرِسماعت رہا اور اس دوران اطراف نے اپنے اپنے دلائل دیے، اس بار یہ دلائل لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ممنون رشید شیخ کی سربراہی میں قائم پانچ رُکنی بنچ کے روبرو دیے گئے۔

سیکشن 15  کے خلاف مقدمہ بازی

درخواست گزاروں محمد شعیب ارشد اور دیگر نے یہ دلیل دی کہ سیکشن 15 کے باعث بنکوں کو رہن شدہ پراپرٹی فروخت کرنے کے حوالے سے غیر معمولی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں جس کے لیے انہیں عدالتی کارروائی کے باعث حاصل ہونے والے فیصلے کی ضرورت بھی نہیں رہی اور یہ سارا عمل آئین کی شق 10 اے کی خلاف ورزی ہے جو ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے۔

درخواست گزاروں نے یہ دلیل بھی دی کہ قرض دہندہ اور بنک پہلے ہی ایک تعلق میں بندھے ہوتے ہیں اور تنازعے کے حل کے لیے آرڈیننس کی شق نمبر 9  میں میکانزم کی وضاحت کی گئی ہے جو بنکنگ کورٹس کی ایک ایسے ادارے کے طور پر وضاحت کرتا ہے جو دیوالیہ ہونے کے معاملات پر فیصلہ کرے: جیسا کہ اگر صارف یا فنانشل انسٹی ٹیوشن کسی بھی معاشی معاملے کے تناظر میں اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے کے باعث دیوالیہ ہو جاتے ہیں تو فنانشل انسٹی ٹیوشن یا جیسا کہ ممکن ہے، صارف بنکنگ کورٹ میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔

شق نمبر 9 چوں کہ پہلے سے ہی موجود ہے جس کے باعث درخواست گزاروں نے دلیل دی کہ شق نمبر 15 کے باعث بنکوں کو دیوالیہ ہو جانے والے قرض دہندگان کے خلاف لامحدود اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے دلیل دی کہ صارف کے دیوالیہ ہونے کے تعین سے قبل ہی ریکوری کے عمل کا آغاز مکمل طور پر غلط ہے۔

مزید پڑھیں: میزان بنک کے لیے 2019 تو کاروباری تناظر میں شاندار رہا، تاہم موجودہ سال کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے

درخواست گزار بالخصوص شق نمبر 15 کے غلط استعمال کے حوالے سے تشویش میں مبتلا تھے۔ انہوں نے مثال کے طور پر یہ دلیل دی کہ بنک منیجرز یہ شق ان قرض دہندگان کے خلاف غلط طور پر استعمال کر سکتے ہیں جن کے اثاثے غیر معمولی طور پر پرکشش ہوں، مفروضے کے طور پر بات کی جائے تو بالخصوص ایسے ریئل سٹیٹ اثاثے جو غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوں۔

درخواست گزاروں کے مطابق، فنانشل انسٹی ٹیوٹشنز کو حاصل غیرمعمولی اور غیرساختیاتی نوعیت کے اختیارات کے باعث، اور اس حوالے سے قبل ازیں کوئی ضابطہ بھی متعین نہ کیا گیا ہو، قرض دہندگان کا استحصال ہو گا اور پراپرٹی ضبط کر لی جائے گی۔۔۔ غیر معمولی اور غیر حقیقی مطالبوں کے خلاف کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور دیوالیہ پن کا یکطرفہ تعین کرنے کے علاوہ جلد از جلد، ساز باز کے ساتھ اور نیلامی سے قبل ہی کیے جانے والے مبینہ انتظامات سے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔

درخواست گزاروں نے یہ دلیل پیش کی کہ رہن شدہ پراپرٹی کی قیمت کا تعین کرنے کے لیے بنکوں کو یہ غیر معمولی اختیار دیا گیا ہے جس کے باعث بنکوں کی جانب سے  ساز باز اور استحصالی رویہ رکھے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ وہ نیلامی کے اس طریقہ کار کو متعصبانہ، دھوکے پر مبنی اور مفادات کا مثالی ٹکرائو قرار دیتے ہیں۔

درخواست گزاروں نے یہ دلیل بھی دی کہ شق نمبر 15 کو قانون سازی کے ذریعے دوبارہ متعارف کروایا جانا غیر آئینی تھا جو یہ کہتا ہے کہ دیگر عدالتیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کی پابند ہیں۔

سیکشن 15 کا مقدمہ

درخواست گزار وکیلوں کا ایک گروپ ہے جو ماضی میں ان کمپنیوں کی جانب سے مقدمہ بازی کر چکا ہے جو قرضوں کے حوالے سے دیوالیہ ہوئیں۔ وزارتِ خزانہ، سٹیٹ بنک آف پاکستان اور بنکنگ انڈسٹری استغاثہ کی جانب سے فریقین ہیں۔

اگرچہ درخواست گزار بنکوں کو غیرمعمولی اختیارات حاصل ہونے پر تشویش کا شکار ہیں تو حکومت کی قیادت میں استغاثہ یہ موقف رکھتا ہے کہ اس فیصلے کے باعث پاکستان میں قرضوں کی واپسی کے رجحان میں اضافہ ہو گا اور اگر قانون میں آسانی پیدا کی جاتی ہے تو لوگ بنکوں کو قرضے واپس نہیں کریں گے۔ حکومت کے مطابق، شق نمبر 15 کو اس لیے دوبارہ لاگو کیا گیا تاکہ اس عفریت پر قابو پایا جا سکے جس کے معیشت پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اور اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے حکومت نے قانون کی ازسرِنو تحریر شدہ شق کے میکرو اکنامکس کے تناظر میں فوائد کی نشاندہی کی کہ ایسے قرضوں کے حجم میں اضافوں کے باعث، جو واپس نہیں کیے جاتے، لیکویڈیٹی کم ہو جاتی ہے اور بنکوں کا منافع میں کمی آتی ہے جس کے باعث ان کے لیے نئے قرض دینا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔ قرضوں کی ادائیگی میں واپسی میں دلوالیہ ہونے کے باعث پبلک فنڈز کا اسراف ہوتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں بنک ڈیپازٹرز کی رقوم کو اپنی معاشی ضروریات استعمال کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔”

مزید پڑھیں: نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کو عوام کی جانب سے پذیرائی مل رہی ہے: محمودالرشید

حکومت اس موقف کے خلاف بھی استدلال پیش کرتی ہے کہ شق نمبر 15 لوگوں کو آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق سلب کرتی ہے۔ ان کے مطابق، ازسرنو متعارف کروائی گئی شق میں اپنی پراپرٹی رہن رکھوانے والے قرض دہندگان کے لیے دو ذیلی شقیں بھی موجود ہیں۔

ذیلی شق نمبر 13 کے تحت بنکنگ کورٹ کچھ مخصوص حالات میں پراپرٹی کی فروخت کے حوالے سے حکمِ امتناعی جاری کر سکتی ہے۔ ذیلی شق نمبر 14 کے تحت قرض دہندہ بنکنگ کورٹ سے استدعا کر سکتا ہے کہ پراپرٹی کی فروخت جعلسازی کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔

مزیدبرآں، قرض دہندگان کا فنانش انسٹی ٹیوشنز (ریکوری آف فنانسز) رولز، 2018 کے تحت بھی تحفظ یقینی بنایا گیا ہے جن میں مزید قواعد شامل کیے گئے ہیں کہ قرض نادہندگان کی پراپرٹی کس طرح فروخت کی جائے۔ مثال کے طور پر چارٹرڈ اکائونٹنٹ فرم دیوالیہ ہونے والے قرض دہندہ کی رقم کا تعین کرے جس کے اخراجات بنک کی جانب سے ادا کیے جائیں گے۔

حکومت یہ استدلال پیش کرتی ہے کہ ان ذیلی شقوں اور یہ ضابطے بنکرز کے منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

عدالت نے کیا فیصلہ کیا؟

اختتام پر یہ معاملہ فی الحال حل نہیں ہوا ۔ پانچ میں سے چار ججوں نے استغاثہ یا دوسرے لفظوں میں وفاقی حکومت، سٹیٹ بنک آف پاکستان اور بنکنگ انڈسٹری کے موقف کی تائید کی۔ اکثریتی ججوں کی رائے جسٹس عاصم حفیظ نے لکھی جن کے مطابق، درخواست گزاروں کی جانب سے تین بنیادی معاملات عدالت کے روبرو پیش کیے گئے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے پہلی دلیل تو متناسب نمائندگی سے متعلق تھی کہ موجودہ حالت میں قانون قرض دہندگان کو ناکافی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اس حوالے سے عدالت یہ تسلیم کرتی ہے کہ حقیقی سیکشن 15 میں قرض دہندگان کو موزوں تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تھا اور مزید کہا گیا ہے کہ وہ بنکوں کو غلط سرگرمیوں سے روکنے کے حوالے سے نامناسب اور کمزور تھا۔

لیکن عدالت استغاثہ سے متفق ہے کہ نئی شق 15 کی ذیلی شقوں بالخصوص 13،14 اور 15 میں واضح اور نمایاں حل پیش کیے گئے ہیں۔ اور یہ قرض دہندگان کو مناسب تحفظ کی فراہمی کے حوالے سے  نسبتاً اعلیٰ معیار کے حامل ہیں: کیا ازسرِنو تشکیل دی گئی شق 15 میں قرض دہندگان کو مناسب حقوق فراہم کیے گئے ہیں، فروخت سے قبل اور بالخصوص فروخت کے بعد یہ حقوق موجود ہیں؟عدالت کہتی ہے کہ دونوں معاملات میں یہ حقوق موجود ہیں۔

ذیلی شق 13 کے تحت قرض دہندہ بنکنگ کورٹ میں رہن شدہ پراپرٹی پر واجب الادا قرض کے حوالے سے رقم کے تعین کے حوالے سے دعویٰ دائر کر سکتا ہے۔  قرض دہندہ رہن شدہ پراپرٹی کی واپسی کا اپنا حق بھی استعمال کر سکتا ہے جو واجب الادا قرض کی رقم کی واپسی تک رہن شدہ ہوتی ہے۔

عدالت نے یہ بھی جائزہ لیا کہ ذیلی شق 12 کے تحت بنکنگ کورٹس کو تنازعات کے حل کے لیے خصوصی حقوق حاصل ہیں۔

مختصراً، شق 15 متاثر نہیں ہوتی، یہ متعصبانہ ہے اور نہ ہی قرض دہندہ کو اس کے حق سے محروم کرتی ہے۔

درحقیقت عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ کہا ہے کہ شق 15 قرض دہندہ کو بنیادی نوعیت کے دو حقوق فراہم کرتی ہے، اول، وہ اپنی پراپرٹی کو واپس حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے اور فروخت کے طریقہ کار پر اعتراض بھی کر سکتا ہے۔۔۔ لیکن یہ سب حقوق اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب نیلامی کا عمل مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔

پٹیشنرز کی دوسری بنیادی دلیل یکساں تحفظ کے حوالے سے تھی کہ شق 15 بنکوں کو قرض دہندگان کے حوالے سے امتیازی سلوک برتنے اور ان کے ساتھ غیرمنصفانہ طور پر پیش آنے کی اجازت دے گا۔ اس حوالے سے عدالت کو قرض دہندہ کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے اور کیا آئین میں موجود یکساں تحفظ کی شق اس معاملے سے مناسبت رکھتی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو کیا شق 15 ان آئینی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں۔

عدالت نے اس معاملے پر یہ فیصلہ دیا کہ عدالت یکساں تحفظ کی شقوں کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ آئین شہریوں کےدرمیانی امتیازی سلوک برتنے پر پابندی عائد کرتا ہے لیکن وہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ طور پر کاروباری معاہدے کرنے سے نہیں روکتا جس کے تحت وہ ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت عمل کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں۔

قرض دہندہ وہ ہے جس نے ایک قانونی دستاویز پر دستخط کیے ہیں اور مخصوص غیر منقولہ جائیداد کے بدلے میں رقم وصول کی ہے۔ قرض دہندہ معاہدے کے تحت کچھ وعدے کرتا ہے اور بنک کے ساتھ ایک کمٹمنٹ میں بندھ جاتا ہے۔

انہی وجوہ کے باعث، شق 15 کے تحت مخصوص لوگوں کے خلاف ہی کارروائی ممکن ہے، مثال کے طور پر قرض دہندہ اور بالخصوص دیوالیہ ہو جانے والے قرض دہندگان۔ عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ اور یہ مخصوص اقدام محض امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے اندیشے یا الزام کی بنیاد پر غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تیسرا معاملہ اس حوالے سے کورٹ کے کردار کے بارے میں تھا: کیا لاہور ہائی کورٹ اس معاملے پر فیصلہ دے سکتی ہے جب کہ سپریم کورٹ اس سے قبل قانون کے پرانے مسودے پر فیصلہ دیتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دے چکی ہے (2013 کا ابتدائی فیصلہ)۔

اس معاملے پر لاہور ہائی کورٹ عدلیہ اور پارلیمان کے اختیارات کے دائرہ کار میں فرق واضح کرنے کے حوالے سے واضح تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ عدالت کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی قانون ساز کے مقصد یا نیت کے حوالے سے تفتیش کرے۔ ایک بار جب کوئی قانون تشکیل پا جا تا ہے تو کورٹ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون ساز کی نیک نیتی پر شک کرے اور نہ ہی کورٹ اس بنا پر قانون کو مکمل طور پر لاگو کرنے سے انکار کر سکتا ہے کہ اس سے اس کا اپنا فیصلہ کالعدم قرار پائے گا۔

درست، اس حوالے سے آسانی کے ساتھ احتیاط ممکن تھی۔

چناں چہ کیا کورٹ کو کسی بھی حوالے سے کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش تھا؟

 حقیقت میں، ہاں! عدالت نے کہا کہ 2018 کے رولز قابلِ قبول ہیں: حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ 2001 کی شق 25 وفاقی حکومت کو رولز بنانے کا استحقاق دیتا ہے۔ تاہم، عدالت کو 2018 کے رول 3 (c) (iv) پر شدید تحفظات تھے، جو ایک بولی دہندہ ہونے کی صورت میں بھی نیلامی کی اجازت دیتا ہے۔

محض ایک بولی دہندہ ہونے کا تصور کچھ موزوں معلوم نہیں ہوا۔ جیسا کہ کورٹ نے کہا کہ شق نمبر 25 اور رولز میں عوامی نیلامی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ مخصوص رولز آئین کے آرٹیکل 24 سے متصادم ہیں جو پراپرٹی کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور یہ مسابقتی نیلامی کے بنیادی اصولوں سے بھی میل نہیں کھاتی۔

قانون کی بہت اصلاح ہو چکی، اس کا درحقیقت مقصد کیا ہے؟

کراچی سے تعلق رکھنے والے کارپویٹ وکیل اور لا فرم آر آئی اے اے بارکر میں پارٹنر شفق رحمان کے مطابق، یہ فیصلہ یہ یقینی بناتا ہے کہ قانون سازی پہلے ہی ہو چکی ہے، یہ بنک کا حق ہے کہ وہ درست طور پر تخلیق کیے گئے رہن کے معاہدے پر عملدرآمد کرے۔

انہوں نے پرافٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ صارفین کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے جیسا کہ ایک نے بنک سے محض قرضہ لیا ہے جب کہ دوسرے نے بنک کو پراپرٹی رہن رکھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک صارف کوئی بھی ایسا شخص ہے جس نے فنانسنگ کے لیے بنک سے رابطہ کیا۔ لیکن سیکشن 15 ایسے صارف کے متعلق ہے جس نے ناصرف قرضہ لیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی اپنی منقولہ جائیداد کو فنانشل انسٹی  ٹیوشن کے پاس ضمانت کے طور پر بھی رکھا ہے، مثال کے طور پر صارف نے فنانشل انسٹی ٹیوشن کو یہ واضح حق دیا ہے کہ اگر وہ قرض کی ادائیگی میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ اس کی بنک کو رہن رکھی گئی پراپرٹی کو فروخت کر دے۔

اگر پراپرٹی مرضی سے رہن رکھی جاتی ہے اور اس بارے میں صارف کو علم ہوتا ہے تو اس صورت میں صارف قرض دینے والے ادارے کے ساتھ کی گئی اپنی کمٹمنٹ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔

مسئلہ ابتدائی شق 15 کے ساتھ درپیش ہے جس کے تحت قرض دہندہ کو موزوں طور پر اس سارے عمل میں شامل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی قرض دہندہ کو رہن رکھنے کے عمل پر عملدرآمد کے دوران موزوں حل فراہم کیا جاتا ہے۔ فیصلے کے مطابق، نئی شق نمبر 15 ان خامیوں کو سامنے لائی ہے جن کا ذکر سپریم کورٹ کے حقیقی فیصلے میں کیا گیا تھا۔

شفق رحمان کے مطابق، حالیہ فیصلے کو قرض دہندگان پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں معاشی اداروں کے تناظر میں اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونا چاہئے۔

اس حوالے سے پرافٹ نے سلمان اکرم راجہ سے بھی بات کی جو استغاثہ کی جانب سے اس کیس میں مرکزی وکیل تھے، وہ کیمبرج اور ہارورڈ جیسے تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو آئینی معاملات پر دلائل دینے کے باعث معروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیشِ نظر رکھنا اہم ہے کہ یہ حقیقت میں دنیا بھر میں امریکا، انڈیا وغیرہ میں ایک عمومی اصول ہے۔ بہت سے ملکوں میں شق 15 سے ملتی جلتی شقیں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتی عمل طویل اور تھکا دینے والا ہے جہاں مقدمات پر بسا اوقات آٹھ سے دس برس بعد سماعت ہو گی۔ دیوالیہ ہونے والے قرض دہندگان کے مقدمات میں تاخیر کا مطلب  یہ ہوتا ہے کہ ایک بہتر سیٹلمنٹ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ یہ درحقیقت عدالتی نظام میں تاخیر ہے جس کے باعث معاملہ حل ہو جاتا ہے۔ اس کے پس پردہ بنیادی مقصد یہ ہے کہ بنکوں کو زیادہ سے زیادہ پراعتماد ہونا  چاہئے اور انہیں یہ تحفظ حاصل ہو کہ وہ اس پر منصفانہ ااور مناسب انداز سے عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور انہیں کورٹ کا رُخ نہیں کرنا پڑے گا۔

اس مقدمے پر اس قدر جلد سماعت کیوں ہوئی؟

یہ نہایت عجیب ہے کہ رہن رکھی گئی جائیدادوں کے حوالے سے یہ مبہم سیکشن جس پر 2016 سے سماعت ہو رہی تھی، اسے 2019 کے بعد اچانک نئی زندگی مل گئی۔

آپ اس کے لیے نیا پاکستان سکیم کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جولائی 2019 میں نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم متعارف کروائی تھی جس کا مقصد پاکستان بھر میں اگلے پانچ برسوں میں 50 لاکھ گھر تعمیر کرنا ہے۔

واحد مسئلہ یہ ہے کہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اس منصوبے کے لیے پاکستانی قانون کی جانب سے کسی قسم کی ضمانت کی فراہمی کے بغیر قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بہرحال، یہ 50 لاکھ گھر لوگوں کو فروخت کیے جانے ہیں اور خریداروں کی بڑی تعداد کو گھر بنانے کے لیے قرضوں کی ضرورت ہو گی جس کا مطلب یہ ہے کہ بنکنگ انڈسٹری کو ان نئے قرض دہندگان کو قرض دینے کے لیے تیار ہونا ہو گا۔ تاہم، بنک یہ یقین دہانی حاصل کیے بغیر قرض دینے پر تیار نہیں ہوں گے کہ اگر قرض دہندہ دیوالیہ ہوجاتا ہے تو وہ اس کا گھر فروخت کر کے اپنی رقم وصول کرنے کے قابل ہوں گے۔

وزیراعظم نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی تھی جنہوں نے پہلی سماعت کے لیے 13 ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔ بعدازاں، چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے لارجر بنچ کے روبرو مزید سماعتوں کے لیے نومبر 2019 کی تاریخ کا تعین کیا۔

اس کی تصدیق راجہ سلمان اکرم نے بھی کی جنہوں نے کہا کہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور حتیٰ کہ عالمی بنک ہائوسنگ سیکٹر کے لیے رقم دینے کا انتظار کرتے رہے ہیں لیکن وہ عدالتوں کی جانب سے ٹھوس فیصلہ دیے جانے کے منتظر بھی تھے۔

پرافٹ نے درخواست گزاروں میں سے ایک سینئر وکیل شاہد اکرام صدیقی سے بھی بات کی جو لاہور کی ایک قانونی فرم لائرز اینڈ لائرز انٹرنیشنل کے واحد پارٹنر ہیں جنہوں نے ماضی میں پنجاب میں غالباً کسی بھی دوسری قانونی فرم کی نسبت قرض نادہندگان کی جانب سے زیادہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ پورا فیصلہ حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک سے قرضہ حاصل کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مکمل طور پر ایک سیاسی فیصلہ ہے۔

کیا سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی جائے گی؟

مختصر جواب اثبات میں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل ہو سکتی ہے۔ ہائی کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کی طرح پابند نہیں کرتا۔ اپیل کرنے کا انحصار فرد یا درخواست گزاروں پر ہے کہ وہ مقدمے کی مزید پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

شاہد اکرام صدیقی کے کے مطابق، اپیل متوقع طور پر جلد ڈرافٹ کر لی جائے گی۔ ان کے لیے سرے سے یہ سوال ہی نہیں ہے کہ اپیل نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں بہت کمزور فیصلہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے شق کی محض زبان تبدیل کی ہے لیکن نیت (بنک کی) ہنوز باقی ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پانچ ججوں میں سے جونیئر ترین جج عاصم حفیظ نے فیصلہ لکھا جو محض ایک برس قبل ہی ہائی کورٹ میں جج تعینات ہوئے ہیں اور چیف جسٹس نے یہ فیصلہ نہیں لکھا۔ اس نوعیت کے بہت سے کمزور نکات ہیں۔

یہ غیر واضح ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد پر حکم امتناعی لیا جاتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار اپیل کرنے کا فیصلہ کرنے پر ہو گا۔ لیکن سلمان اکرم راجہ یہ جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل کیے جانے کی امید کر رہے ہیں۔ کون جانے، یہ معاملہ کتنا عرصہ چلے گا؟ اس پر مزید کچھ برس لگ جائیں گے جب یہ معاملہ بالآخر حل ہو گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here