اسلام آباد: حکومت پر واجب الادا قرض رواں مالی سال (20-2019) کے دوران گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) کا 83 فی صد رہے گا جو معاشی ذمہ داری اور قرض کی حد کے ایکٹ 2005 کے تحت مقرر کی گئی 60 فی صد کی لمٹ سے خاصا زیادہ ہے۔
ذرائع نے کہا ہے کہ وزارت خزانہ نے میڈیم ٹرم میکرواکنامک فریم ورک میں یہ تسلیم کیا ہے کہ ملک کا قرضہ جی ڈی پی کا 83 فی صد رہے گا۔
حکومت پر واجب الادا قرض مالی سال 2019 کی نسبت مالی سال 2020 میں کم ہے جب یہ جی ڈی پی کا 85 فی صد ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایمنسٹی سکیم، ایف بی آر سے 12 ہزار ٹیکس دہندگان کے زیرالتوا معاملات پر وضاحت طلب
وزارت نے اندازہ مرتب کیا ہے کہ حکومت پر واجب الادا قرض آنے والے برسوں میں کم ہو گا جیسا کہ یہ 21-2020 میں ممکنہ طور پر 81 فی صد، 22-2021 میں 79 فی صد اور 23-2022 میں 77 فی صد رہے گا۔
ذرائع نے کہا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے یہ اندازہ مرتب کیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کے 10.8 فی صد یا 5،179 ارب روپے رہنے کا امکان ہے، 21-2020 میں یہ شرح جی ڈی پی کے 12.5 فی صد یا 6,191 ارب روپے ہو گا جب کہ 22-2021 میں یہ جی ڈی پی کی شرح کے 13.1 فی صد اور مالی سال 23-2022 میں یہ 13.6 فی صد رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزارت رواں معاشی سال کے لیے بجٹ خسارہ مرتب کیے گئے اندازوں 7.1 فی صد (3،146 ارب روپے) سے کم کر کے اسے 23-2022 میں تین فی صد تک کرنا چاہتی ہے۔
مزید پڑھیں: رواں مالی سال 7 ماہ میں ٹیکس وصولی میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ ایف بی آر
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ وزارت نے افراط زر کی شرح موجودہ مالی سال میں 11.7 فی صد سے کم کر کے 23-2022 میں 5.3 فی صد کرنے کی پیشگوئی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران معاشی شرح نمو 2.6 فی صد رہنے کا امکان ہے جو معاشی سال 2023 میں 5.1 فی صد ہو گی، یہ اندازہ پی ٹی آئی کی حکومتی معاشی ٹیم کی جانب سے مرتب کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:5.2 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف کیسے پورا ہوگا؟ ایف بی آر معجزے کی تلاش میں
ذرائع نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے منگل کو شعبہ جاتی ترجیحات کے حوالے سے آگاہ کیا جن کے مطابق، ان میں فوڈ سکیورٹی، ایگریکلچر (ٹڈی دل پر قابو پانا)، ہیلتھ سکیورٹی (کرونا وائرس)، اعلیٰ تعلیم، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ اہداف، سیاحت کی ترقی، تنخواہوں اور الائونسز میں ہم آہنگی پیدا کرنا، دفاع اور پبلک سکیورٹی، احساس اور سوشل سیفٹی نیٹ اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام شامل ہیں۔