پشاور: وفاقی حکومت کی جانب سے طورخم بارڈر کی بندش کے باعث خیبرپختونخوا کے تاجروں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ متصل اپنی سرحد دو ہفتوں کے لیے بند کر دی ہے جس کا مقصد کورونا وائرس کے پھیلائو پر قابو پانا ہے۔ اس فیصلے کے باعث تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ ڈھائی ارب ڈالر کا تجارتی حجم خطرات کا شکار ہو گیا ہے۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر شاہد حسین نے اس رپورٹر سے بات کرتے ہوئے حکومت کے افغانستان کے ساتھ سرحد کو بند کرنے کے فیصلے کو ایک غیر سنجیدہ اقدام قرار دیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بارڈر عوام کے لیے بند کیا جانا چاہئے اور فرائیٹ وہیکلز کے لیے نہیں کیوں کہ ڈرائیوروں اور کنڈکٹرز کی سکریننگ آسانی کے ساتھ ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرحدوں کی بندش سے ناصرف خیبرپختونخوا کی کاروباری برادری متاثر ہو گی بلکہ افغانستان کے تاجروں کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ چیمبر حکومتی فیصلے کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی طے کرنے کے حوالے سے کل کوئی فیصلہ کرے گا۔
خیبرپختونخوا کے تاجر روزانہ کی بنیادوں پر درجنوں مصنوعات افغانستان برآمد کرتے ہیں جن میں سیمنٹ، ادویات، سبزیاں وغیرہ شامل ہیں جو اب یہ یقین رکھتے ہیں کہ سرحد کی بندش سے صوبے کے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے۔
کسٹمز کے سابق افسر ضیاء الحق سرحدی نے کہا ہے کہ حکومت افغان سرحد کو دو ہفتوں کے لیے بند کر کے تاجروں کا معاشی قتلِ عام کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، خیبرپختونخوا کی فیکٹریوں اور تاجروں کا بڑی حد تک انحصار افغان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت پر ہے۔ حکومت کو اس فیصلے پر نظرثانی کرنا ہو گی کیوں کہ اس وائرس سے بچائو کے لیے دیگر طریقے موجود ہیں۔
دریں اثنا، پشاور میں پندر، سبزی منڈی کے تاجروں نے پاک افغان سرحد کی بندش کے خلاف احتجاج کیا جو یہ کہتے ہیں کہ حکومت نے قبل ازیں 16 مارچ کو سرحد بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس نے 14 مارچ کو ہی سرحد بند کر دی جس کے باعث تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
تاجروں نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ 16 مارچ تک سرحد کو کھلا رکھا جائے تاکہ وہ پہلے سے ہی پھلوں اور سبزیوں سے لدے ہوئے ٹرکوں کو ٹرانسپورٹ کرنے کے قابل ہو سکیں۔