گندم کی امدادی قیمت 1600روپے فی من مقررکی جائے: کسانوں کا مطالبہ

’1400 روپے قیمت ناکافی، بارشوں سے سندھ اور پنجاب میں گندم کے کاشت کاروں کو شدید نقصان پہنچا ہے، حکومت نے کسانوں کو ریلیف دینے کے بجائے مل مالکان کو 20 ارب کی سبسڈی دے دی‘

1670

لاہور: اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بدھ کو گندم کی فی من امدادی قیمت میں 35 روپے اضافے کی منظوری دی، جس سے فی من گندم کی قیمت   1365سے 1400 ہوگئی ہے۔

اگرچہ کسانوں کی جانب سے  گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کو سراہا جا رہا ہے تاہم وہ اسے ناکافی بھی قرار دے رہے ہیں۔

مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے ایک کسان احسن ملک نے کہا، “مارچ میں ہونے والی بارشوں نے سندھ اور پنجاب کے گندم اگانے والے کسانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان ( کسانوں) کے نقصانات بہت زیادہ ہیں لیکن حکومت نے کسی قسم کا ریلیف دینے کے بجائے امیر اور شاطر مل مالکان کے لیے بجلی کے بلوں کی مد میں 20 ارب کی سبسڈی کا اعلان کردیا ہے۔‘‘

 احسن  نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو گندم کی امدادی قیمت 1600روپے فی من مقرر کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ گندم کی فروخت ہر جگہ سرکاری ریٹ پر ہی ہو۔

انہوں نے کہا کہ کاشت کاروں کی مشکلات تو گندم کےسرکاری خریداری کے مراکز پر بار دانہ کی تقسیم کے وقت سے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

بارشوں سےپنجاب میں  گندم کی فصل متاثر، پیداوار 25.2 ملین ٹن رہنے کی توقع

گندم بحران، سمگلنگ میں ملوث کسٹمز کے سات اہل کار ملازمت سے برخاست

بائبل میں بیان کردہ عذاب یا موسمیاتی تغیر؟ پاکستان میں قحط کے بڑھتے خدشات

احسن کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے چینیوٹ سے تعلق رکھنے والے کسان سید عقیل حیدر نے کہا کہ گندم کی امدادی قیمت میں فی من 35 روپے کا اضافہ کسانوں کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

انکا کہنا تھا کہ اس اضافے سے تو فصل کی تیاری میں اٹھنے والے اخراجات بھی بمشکل پورے ہوں گے، پوری دنیا میں گند م کی فی من قیمت 1575سے 1600روپے ہے جبکہ پاکستان میں اسکا تعین مہنگائی کے مطابق ہوتا ہے اور نہ ہی پیداواری لاگت کے مطابق۔

عقیل حیدر کے مطابق پاکستان کو بہت پہلے ‘متفرق زراعت’ کو اپنا لینا چاہیے تھا جو کہ جو مٹی کی زرخیزی اور پودوں کے قدرتی عمل پر تیار کردہ ایک پائیدار زرعی پیداوار کا نظام ہے۔  اس نظام کو اپنانے سے  ہمارے ملک کی فصلوں کو درپیش بہت سے مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔

حیدر نے کہا،“متفرق زراعت میں کسان کی لاگت 70فیصد تک کم ہوجاتی ہے، اسکی بدولت پہلے سال کھاد کا استعمال 70فیصد تک کم ہوجاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ کھاد کی ضرورت بلکل ختم ہوجاتی ہے۔”

انکا کہنا تھا کہ فصلوں کی کاشت کا موجودہ طریقہ زمین کی زرخیزی  اور پودوں کی نشوونما کو سمجھے بغیر پروان چڑھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ دنیا میں جہاں کسانوں نے متفرق زراعت کو اپنایا ہے،  وہاں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 100من تک ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ محض 20سے 25من فی ایکڑ تک ہے۔”

 اس حوالے سے کسان اتحاد کے چئیرمین خالد مقبول نے بتایا  کہ کسان عوام کی خریداری کی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے 1400 روپے فی من میں گندم فروخت کرنے کو تیار ہیں مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام کو آٹا 40روپے فی کلو میں ہی دستیاب ہو نہ کہ 80روپے فی کلو، جیسا کہ پچھلے برس یا مہینوں میں ہوتا رہا ہے۔

 انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ صارفین تک زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکے۔

انہوں نے رائے دی کہ حکومت کو گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کے بجائے پیداواری لاگت کم کرنے اقدامات کرنے چاہییں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here