’’صحت کہانی‘‘ کی کہانی۔۔۔ گھر بیٹھی خواتین ڈاکٹرز کو پریکٹس کی جانب لانے کا سٹارٹ اَپ، لیکن طبی اصولوں اور اخلاقیات کو نظرانداز کردیا گیا ہے

ایسی ڈاکٹرز جو محض جنرل فزیشن ہیں وہ ’’صحت کہانی‘‘ ایپ پر ماہر امراضِ قلب، ماہر نفسیات یا ماہرِ امراض درد ہونے کی دعویدار ہیں، ایسی ڈاکٹرز بھی ہیں جن کے لائسنس منسوخ ہو چکے ہیں پھر بھی وہ مریضوں کو آن لائن مشورے دے رہی ہیں

2088

آپ تقریباً قہقہے سن سکتے ہیں، یہ مسکراہٹ اور قہقہے نفرت آمیزی اور خوداعتمادی سے بھرپور ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے پس پردہ کوئی وجہ ہوتی ہے، ملک بھر میں ڈرائنگ رومز میں ہونے والی گفتگو میں لوگ چیختے چلاتے ہیں اور اس واحد معاملے پر اپنے سر شرم سے جھکا لیتے ہیں کہ خواتین گریجوایشن کے بعد میڈیسن کی پریکٹس نہیں کرتیں۔

یہ تمام خواتین محض اس لیے ڈاکٹرز بنتی ہیں کیوں کہ وہ اپنے لیے اچھے رشتے چاہتی ہیں اور درحقیقت پریکٹس کرنے کے لیے اس قدر محنت نہیں کرتیں، اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں کہ یہ ہمارے ڈرائنگ روم کے جنگجو ہی ہیں جو سب سے پہلے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں جب ان کی بہو کہے کہ وہ بچے کا خیال رکھیں کیوں کہ اسے ایمرجنسی پر جانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو لڑکوں کے لیے کوٹہ مخصوص کرنا چاہئے تاکہ وسائل ضائع نہ ہوں، کیا کسی کو یہ فکر ہے کہ پاکستان میں شوہروں کی ایک بڑی تعداد شادی کے بعد کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے انکار کر دیتی ہے؟

ڈاکٹر سارا سعید کہتی ہیں کہ  وہ میڈیکل ڈاکٹر تو تھیں لیکن اب انٹراپرینیور بھی بن گئی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جو کمپنی بنائی ہے وہ ایسی گھریلو خواتین کو موقع فراہم کر رہی ہے جو مشکلات کے باوجود اب بھی اپنی پریکٹس جاری رکھنا چاہتی ہیں۔

ذہین، پراعتماد، تربیت یافتہ اور پرجوش مزاج کی حامل ڈاکٹر سارا سعید ٹیلی ہیلتھ پرووائیڈرکمپنی’’صحت کہانی‘‘ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ہیں، صحت کہانی گھروں میں موجود خواتین ڈاکٹرز کے ذریعے طبی سہولیات فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔

صحت کہانی کی بانی ڈاکٹر سارا سعید

ڈاکٹر سارا کی کہانی  متاثر کن ہے، وہ ان رجعت پسندانہ  معاشرتی روایات کا سامنا کرنے کے لیے کھڑی ہوئی ہیں جو پاکستان میں بہت سی نوجوان خواتین کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والی سارا نے آغا خان یونیورسٹی سے بیچلرز اِن میڈیسن و سرجری (ایم بی بی ایس) کی ڈگری حاصل کی لیکن ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ چپ چاپ گھر میں نہیں بیٹھ گئیں اور زندگی کو خاموشی سے گزارنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے انٹراپرینورشپ کا سفر شروع کرنے کے لیے میڈیکل کی پریکٹس تک چھوڑ دی۔ سارا کے لیے صحت کہانی شروع کرنے کا فیصلہ صرف مریضوں کے علاج تک محدود نہیں بلکہ یہ ڈاکٹروں کے لیے بھی کام کرتی ہیں، صحت کہانی کے ذریعے مشکلات اور تضحیک کا شکار ان خواتین ڈاکٹروں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا مواقع فراہم کیا جاتا ہے جو  میڈیکل کا شعبہ چھوڑ کر گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔

ڈاکٹر سارا نے کہا کہ خواتین کی بڑی تعداد معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے اور بہتر رشتے کی تلاش کے لیے ڈاکٹر بنتی ہے، یہ نکتہ نظر حقوقِ نسواں اور حتیٰ کہ سیاسی طور پر بھی درست  نہیں ہے لیکن ان کے بقول مسئلہ کتنا ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو اس کا درست تعین کرنا اور حل نکالنا ضروری ہے اور ان کا مقصد ہے کہ وہ گھروں تک محدود ہو چکی  ڈاکٹروں کو واپس طب میں لائیں، انہوں نے اس مسئلے کا دلچسپ حل یہ نکالا ہے کہ ایسی ڈاکٹروں کو ابتدائی سطح کے ہیلتھ کئیر تک رسائی دی ہے۔

پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سارا  نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت بروقت ڈاکٹر سے معائنہ نہیں کرواتی، چناں چہ مجموعی آبادی میں سے 33 فی صد لوگ زندگی بھر کسی مصدقہ ڈاکٹر سے علاج معالجہ نہیں کروا پاتے، اس کا مطلب ہے کہ وہ اتائی، دائی یا نرس، حکیم یا عامل کے پاس جا کر علاج کروائیں گے لیکن تربیت یافتہ ڈاکٹروں تک ان کی رسائی ممکن نہیں ہوگی۔

شماریاتی تناظر میں ایسے مریضوں میں سے بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ صحت کہانی کا کام ناگزیز ہے اورٹیکسی سروس  کریم کی طرح استعمال میں نہایت سادہ بھی۔

اگر ایک فی میل ڈاکٹر فیلڈ میں نہیں جاتی تو اس کے مریض اس سے ذاتی طور پر رابطہ نہیں کرتے بلکہ فون پر اس سے بات کرتے ہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ دوردراز علاقوں اور ناقابلِ رسائی دیہاتوں کے لوگوں کو بھی ڈاکٹروں تک رسائی حاصل ہو گئی ہے اور ان کا ویڈیو یا آڈیو کال پر علاج ممکن ہو سکتا ہے، کمپنی نے ملک بھر میں 26 کلینک قائم کیے ہیں جہاں تربیت یافتہ نرسیں مریضوں کا ڈاکٹروں سے رابطہ کرواتی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران ایسے ہی 123,000 مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔

 منصوبے کا آغاز 2017 میں ہوا تاکہ کم آمدن والے طبقات کو صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں، نرسوں کے تعاون سے چلائے جانے والے ٹیلی میڈیسن کلینکس کو آپریٹ کرنے کے بعد موجودہ کلینکس کو بہتر بھی بنایا گیا ہے، صحت کہانی ان کمیونیٹیز میں صحت، تعلیم اور دیگر سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی سرگرم ہے۔

ٹیلی میڈیسن کا تصور نیا نہیں ہے تاہم اس کے باوجود بہت سے لوگ اس طریقہ کار میں آسانی محسوس نہیں کرتے، حقیقت میں یہ پاکستان کے بہت سے گھروں میں اتائی کے طریقہ علاج سے بہتر ہے لیکن یہ تمام صورتِ حال خوش کن بھی نہیں ہے۔ صحت کہانی کی سرگرمیوں پر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو ایک تاریک اور غیر یقینی سرگرمیوں کی غیرمتوقع کہانی واضح ہوتی ہے۔

ان حالات میں صحت کہانی کی موبائل ایپلی کیشن کے پریشان کن حالات بنیادی اہمیت رکھتے ہے۔ آن لائن پورٹل کا مقصد مریضوں کا ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ قائم کروانا ہے جب کہ ایپ 2019 کی تیسری سہ ماہی میں جاری کی گئی۔ یہ اس کی نہایت مختصر آپریشنل مدت ہے، اس دوران یہ الزام سامنے آیا ہے یہ مریضوں کا ایسی ڈاکٹروں سے رابطہ کرواتی ہے جن کے لائسنس ایکسپائر ہوچکے ہیں یا جو غلط طور پر ماہر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔

مزید پڑھیں: حکیم سعید کی پوتی نے ہمدرد کا چارج سنبھال لیا

 ان الزامات کے باعث بے قاعدگیوں کی روک تھام کے لیے قوانین اور اخلاقی اصولوں کے سوالات ابھرتے ہیں اور صحت کہانی اپنا تعارف ایک سٹارٹ اَپ کے طور پر کرواتی ہے، ڈاکٹر سارا کو ایسا ہی کہلایا جانا پسند ہے۔

صحت کہانی کا آن لائن پلیٹ فارم تاحال ابتدائی مراحل میں ہے جس کے ساتھ محض 70 ڈاکٹر ہی منسلک ہیں جن کی اکثریت نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت کو طب کے مختلف شعبوں میں ماہر کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ چناں چہ ایسی ڈاکٹرز جو محض جنرل فزیشن کے طور پر کوالیفائیڈ ہیں، وہ ایپ پر ماہر امراضِ قلب یا ماہرِ امراض درد کے ماہر ہونے کا دعویٰ کر رہی ہوتی ہیں اور ایسی بھی ڈاکٹرز پریکٹس کر رہی ہیں جن کے لائسنس منسوخ ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر سارا نے ان الزامات پر برہمی کا اظہار کرتے یکسر مسترد کر دیا لیکن اُن کی جانب سے الزمات کو رَد کیے جانے کے باوجود پرافٹ اردو نے اپنے طور پر جائزہ لیا تو صحت کہانی کے آن لائن پلیٹ فارم پر موجود بہت سی ڈاکٹرز نظر نہیں آ رہی تھیں، دیگر ڈاکٹروں کے معاملے میں ان کی کوالیفیکیشن تبدیل کی جا چکی تھی اور ان کے ساتھ لکھا گیا ’ماہر‘ کا لفظ ہٹا دیا گیا تھا اور ان کے چارجز بھی کم کر دیے گئے تھے۔

ڈاکٹر سارا نے وضاحت کی، ’’میں جب سپیشلسٹ کی بات کرتی ہوں تو میں یہ دیکھتی ہوں کہ ایک ڈاکٹر نے پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، اس کے ساتھ ایم ڈی یا ایف سی پی ایس یا ایم سی پی ایس یا ایم آر ڈی جی پی یا ایم آر او سی پی بھی کر رکھا ہے یا نہیں۔ جیسا کہ مثال کے طور پر ہماری ایپ میں ایک ڈاکٹر ہیں جن کا نام حنا گھول ہے، ان کا تجربہ تقریباً 12 برس کا ہے۔ انہوں نے آغا خان ہسپتال میں دو برس تک جنرل پریکٹیشنر کے طور پر کام کیا چناں چہ وہ تجربہ کار ہیں، انہوں نے اپنے گھر میں جب گائناکالوجی اور امراض نسواں کا کلینک کھولا تو امراضِ اطفال میں بھی ڈپلومہ حاصل کیا، چناں چہ آپ کی متعدد شعبوں میں مہارتیں ہو سکتی ہیں۔‘‘

مزید پڑھیں: وزارت صحت فیس بک کے اشتراک سے کورونا وائرس سے بچائو بارے آگاہی مہم شروع کرے گی

ڈاکٹر سارا کا یہ موقف درست معلوم ہوتا ہے، ایپ کا مقصد چوں کہ صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے، یوں تمام ڈاکٹروں کا جنرل فزیشن ہونا ہی ضروری ہوگا اور یہ ان کی ذمہ داری ہو گی کہ اگر ان کے پاس کوئی خاص معاملہ آتا ہے تو وہ اسے کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس بھیجیں۔

ایپ میں کہیں پر یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ ڈاکٹروں کے پاس ایسی کوئی ڈگری ہے جو ان کے پاس نہیں ہے لیکن کیا یہ چالاکی کے ساتھ حقائق کو غلط طور پر پیش کرنا ہے؟ یا صحت کہانی لفظ ماہر کا استعمال کر کے مریضوں کو لبھا رہی ہے۔ طب کا شعبہ اور اور انسانی زندگی دونوں ہی قابلِ تحریم ہیں۔

بقراط کے حلف میں سے کچھ جملے پیشِ خدمت ہیں،’’ اگر مجھ سے کوئی زہر دینے کے لیے کہے تو میں ایسا نہیں کروں گا اور نہ ہی میں ایسی کوئی تجویز دوں گا بلکہ تقدس کے ساتھ اپنی زندگی اور فن کی حفاظت کروں گا۔‘‘  بقراط کا یہ حلف ان اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے جس پر آج بھی مغربی دنیا میں ڈاکٹروں کی اکثریت عمل پیرا ہے۔

طبی اخلاقیات کے حوالے سے بقراط کا حلف انسانی زندگی کی حرمت کے تحفظ پر زور دیتا ہے، مختصراً کہا جائے تو طبی اخلاقیات کا مقصد یہ ہے کہ ڈاکٹر کا بنیادی کردار مریض کی جان بچانا ہوتا ہے۔

پاکستان میں ڈاکٹروں کو ریگولیٹ کرنے کے ذمہ ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے جس میں انسانی زندگی بچانے کو طبی پریکٹس کا بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان میں شعبہ صحت تین سطحی یعنی پرائمری ہیلتھ کیئر، سیکنڈری ہیلتھ کئیراور ٹیرثری ہیلتھ کیئر پر مشتمل ہے جس میں ایک ڈاکٹر کسی خاص وجہ سے مریض کا علاج جاری رکھنے کی بجائے اسے کسی ماہر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتا ہے، پرائمری ہیلتھ کیئر کی سطح پر جنرل فزیشنز اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اور وہ کسی بھی بیماری کی صورت میں مریض کا اولین رابطہ ہوتے ہیں، پرائمری ہیلتھ کیئر کی سطح پر ہی ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر خدمات انجام دے سکتا ہے۔

ایک ماہر ڈاکٹر اپنے شعبہ کی مہارت میں ہی پریکٹس کر سکتا ہے جس کے لیے وہ اس حوالے سے ڈگری حاصل کرتا ہے، اسے برسوں کی تربیت کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور اس کے بعد ہی اسے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے لائسنس ملتا ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر خود پر مریض کا اعتماد قائم کر کے سادہ طور پر بالخصوص پرائمری ہیلتھ کیئر کی سطح پر اپنی مہارت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن وہ ڈاکٹر جنہوں نے ماہر ہونے کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے، وہ درحقیقت مریض کی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں۔

انیستھیزیا کے ماہر اور اب تخلیل ہو چکی تنظیم پاکستان میڈیکل کمیشن جو پی ایم ڈی سی کی جگہ پر قائم کیا گیا، کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی اتفاق کرتے ہیں کہ اس نوعیت کی غیراخلاقی پریکٹس کے نتائج مریضوں کی زندگی کے لیے خطرات کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرام کہتے ہیں کہ  ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کا کسی خاص شعبے میں چاہے بیس سالہ تجربہ ہی کیوں نہ ہو وہ ڈگری کے بغیر سپیشلسٹ نہیں ہو سکتا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سائیکاٹرسٹ نے ایسی پریکٹس کے خطرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر اخلاقی کام ہے جس کے باعث مریض کی زندگی خطرات کی زد پر آ سکتی ہے۔

اور صرف یہی نہیں، ایسا کیے جانے کے باعث ایک کوالیفائیڈ ماہرِطب کی ساکھ متاثر ہوتی ہے جو درحقیقت اپنے پیشے کے تقدس کا خیال رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستانیوں میں صحت پر خرچ کرنے کے رجحان میں اضافہ، سیمنز اس سے فائدہ اٹھانے کو تیار

اور جہاں تک ایکسپائر ہو چکے لائسنسوں کا تعلق ہے تو یہ ایک قانونی ضرورت ہے جس کے بغیر ڈاکٹرز اپنے زیرِعلاج مریض کے ساتھ کچھ غلط ہو جانے پر سنجیدہ نوعیت کی مشکل میں پھنس سکتی ہیں، تاہم یہ نہیں کہ آپ ڈاکٹر نہیں رہتے، وہ چاہے صرف ایم بی بی ایس یا ایک ماہر ہو۔ اور نہ ہی لائسنس کا ایکسپائر ہونا ایک ڈاکٹر کے مصدقہ ہونے کی حیثیت پر سوال اٹھاتا ہے کیوں کہ اس کے پاس کبھی نہ کبھی لائسنس تھا، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک ایکسپائرڈ لائسنس کا ہونا لائسنس نہ ہونے سے بہتر ہے لیکن یقیناً اس طرزِعمل کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔

صحت کہانی کے آن لائن پلیٹ فارم یا اس کے زیرِاہتمام چل رہے کلینکوں پر اب تک بے قاعدگیوں کا کوئی معاملہ رپورٹ نہیں ہوا لیکن اس اَمر کا کوئی ثبوت نہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا یا ایسا ہونے نہیں جا رہا۔ بے قاعدگی اس وقت بھی ہو جاتی ہے جب سب کچھ درست ہو۔ اس وقت ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا ہے جب معاملات بہت زیادہ خراب ہوں؟

ان مسائل کی ذمہ داری مریضوں کی عدم آگہی پر بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مریض پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس کی رسائی صحت کی بنیادی سہولیات تک نہیں ہے، یہ وہ طبقہ ہے جس پر صحت کہانی بنیادی توجہ دینے کا دعویٰ کرتی ہے، ایسا مریض ممکنہ طور پر آگاہ نہیں ہو گا کہ ملک میں قوانین موجود ہیں جو اسے طبی نااہلی کی صورت میں قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ایسی صورت میں اس بات کا کافی امکان ہے کہ وہ اس قابل ہو جائے کہ کسی ماہر تک رسائی حاصل کر پائے۔

اس وقت پاکستان میں میڈیکل پریکٹس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 21 اکتوبر 2019 کو پی ایم ڈی سی کو تحلیل کر دیا تھا اور پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) قائم کرنے کے حوالے سے آرڈیننس جاری کیا تھا۔ پی ایم ڈی سی نے حکومت کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جس نے 12 فروری 2020 کو پی ایم ڈی سی کو بحال کر دیا۔ تاہم ذرائع نے پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس عمارت کو ہی سیل کر دیا ہے جس میں پی ایم ڈی سی کا دفتر واقع تھا۔ (نو مارچ کو لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران پی ایم ڈی سی کے مرکزی دفتر کے دروازے بند کرنے پر عدالت نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے، ادارہ)

لیکن اس عرصہ کے دوران جب پاکستان میڈیکل کمیشن قائم تھا، پرافٹ اردو کو ایک خط دستیاب ہوا جو کمیشن کو انفرادی طور پر ارسال کیا گیا تھا (خط لکھنے والے نے اب بھی اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے)، انہوں نے صحت کہانی کی ایپ پر موجود ڈاکٹروں اور ان کے لائسنسوں کی حیثیت کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی ہیں۔

خط کا متن کچھ یوں ہے،’’صحت کہانی کی سروسز بلامعاوضہ نہیں ہیں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ ان کے بہت سے ڈاکٹر مختلف شعبوں کے ماہر ہونے جیسا کہ ماہر امراضِ قلب، نیورولوجسٹ وغیرہ کا دعویٰ کرتی ہیں۔ میں نے جب پی ایم سی کی ویب سائٹ پر تصدیق کرنے کے لیے ان کے پروفائل دیکھے تو بہ ظاہر وہ محض ایم بی بی ایس گریجویٹ تھیں اور انہوں نے مزید کوئی ایسی تعلیم حاصل نہیں کی تھی جس کی بنا پر وہ ماہر کہلائی جاتیں۔ میرا خیال ہےکہ  یہ ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے جو ان ڈاکٹروں کی ساکھ کے باعث ان سے بات کرتے ہیں جس کے بارے میں صحت کہانی ان کے ماہر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، بالخصوص جب یہ سروس بلامعاوضہ نہیں ہے۔‘‘

خط میں مزید لکھا گیا ہے، ’’میڈیکل کے کسی بھی ادارے کو ایسے ڈاکٹروں کی حمایت نہیں کرنی چاہئے جو حقیقت کے برعکس ماہر ہونے کا دعویٰ کریں۔‘‘ خط میں پی ایم سی سے اس معاملے کی تفتیش کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔

پرافٹ اردو نے اس معاملے پر اس وقت پی ایم سی کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی سے اس موضوع پر بات کی جنہوں نے اگرچہ یہ اتفاق کیا کہ صحت کہانی  کا معاملہ غیر اخلاقی ہے، تاہم انہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ ممکن ہے کہ یہ معاملہ پی ایم سی کے دائرہ کار میں ہی نہ آتا ہو۔

انہوں نے مزید کہاکہ کمیشن انفرادی بے قاعدگیوں کے معاملات کی تفتیش کرتا ہے۔ اس معاملے میں یہ ضروری نہیں کہ ڈاکٹر خود کو ماہر قرار دے رہی ہو بلکہ کمپنی بھی ان کو بطور ماہر پیش کر سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے اس کے باوجود معاملے کی تفتیش کرنے پر اتفاق کیا۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہ ساری سرگرمی جعلسازی اور حقیقت چھپانے کے زمرے میں آتی ہے اور یہ سب کچھ انٹرنیٹ پر ہو رہا ہے اس  لیے اس کے خلاف کارروائی کی ذمہ دار اتھارٹی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) ہو گی۔

ڈاکٹر تقی درست تھے، ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائم ونگ کے حکام نے پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ اگر کوئی انٹرنیٹ پر موجود سروس پر اپنے بارے میں غلط حقائق بیان کرتا ہے تو یہ عمل پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی مختلف دفعات کے تحت فراڈ اور غلط بیانی کے زمرے میں آتا ہے جس کی ذمہ داری ڈاکٹر کے بجائے کمپنی پر عائد ہوتی ہے،  ادارے نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے کی گہرائی سے تفتیش کرے گا۔

خط میں لگائے گئے الزامات کے جواب میں صحت کہانی نے پرافٹ اردو کو مشتبہ ڈاکٹروں کے بارے میں تفصیل فراہم کی تاہم فراہم کیے گئے شواہد معقول نہیں تھے اور کمپنی ممکنہ طور پر بے قاعدگیوں میں ملوث ہونے کا تاثر رَد کرنے میں ناکام رہی۔ صحت کہانی کی جانب سے فراہم کی گئی 21 ڈاکٹروں کی فہرست، جن کا خط میں ذکر کیا گیا تھا، 14 اب بھی کمپنی میں کام کر رہی تھیں جن میں چار ماہرین نفسیات بھی شامل تھیں لیکن کچھ معاملات میں فراہم کی گئی تفصیلات نہایت مبہم ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر، جن کے بارے میں کمپنی نے گائناکالوجسٹ اور جنرل فزیشن ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا، اس بارے میں دستاویزی ثبوت فراہم کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ ڈاکٹر ایک کوالیفائیڈ سپیشلسٹ ہے اور ڈاکٹر نے ایم سی پی ایس کی ڈگری اور کچھ تربیت حاصل کر رکھی ہے۔

تاہم سب سے زیادہ سنجیدہ معاملہ ان سات ڈاکٹروں کے حوالے سے تھا جو ان کے ساتھ مزید کام نہیں کر رہے تھے یا چھٹیوں پر تھے، جیسا کہ پرافٹ اردو کی جانب سے قبل ازیں ذکر کیا گیا ہے۔ صحت کہانی نے ان ڈاکٹروں کی قابلیت کے حوالے سے دستاویزی شواہد فراہم کیے تاکہ ان کو ماہرین ثابت کیا جا سکے، تاہم اس معاملے میں فراہم کیے گئے شواہد صحت کہانی کے دعوئوں کو ثابت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ڈاکٹر درحقیقت اپنے اپنے شعبہ کی ماہر تھیں۔ حقیقت میں پی ایم سی کو جمع کروائے گئے خط سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ کمپنی یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے کرتی رہی ہے کیوں کہ یہ سب ڈاکٹر اس وقت تک کمپنی کے ساتھ منسلک تھے جب پی ایم سی کو لکھا گیا خط منظرِعام پر آیا۔

مثال کے طور پر ایک ایم بی بی ایس ڈگری رکھنے والی ڈاکٹر ایمرجنسی میڈیسن کے ماہر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، صحت کہانی نے محض ہسپتال کی جانب سے جاری کیا گیا ان کے تجربے کا خط فراہم کیا جس کے مطابق ڈاکٹر نے محض میڈیکل آفیسر کے طور پر تجربہ حاصل کیا تھا، یہ کسی بھی ہسپتال میں ایک ایم بی بی ایس گریجویٹ کے لیے ایک عمومی عہدہ ہوتا ہے اور ایک ڈاکٹر کو ایمرجنسی میڈیسن کا ماہر کہلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس صورتِ حال کو مختلف تناظر میں دیکھا جائے تو اخبار دی نیوز میں 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان میں کوالیفائیڈ ایمرجنسی میڈیسن کے ماہرین کی مجموعی تعداد محض نو ہے۔ چناں چہ ہم اگر یہ قیاس کریں کہ صحت کہانی سے منسلک ڈاکٹر تجربے کے سرٹیفکیٹ کے تحت مصدقہ سپیشلسٹ ہیں تو آپ کو حیران کن طور پر پاکستان کے ان 9 ماہرین میں سے چار صحت کہانی کی ایپلی کیشن پر مل جائیں گی۔

مزید پڑھیں: قیمت ایپ کے تحت چار شہروں میں آن لائن ڈلیوری سروس شروع

مزیدبرآں ایک اور ڈاکٹر جو ان کے ساتھ مزید کام نہیں کر رہیں جن کا نام ایک سپیشلسٹ کے طور پر درج کیا گیا تھا، وہ ایف سی پی ایس کی ٹرینی تھیں اور خود کو سپیشلسٹ کہلائے جانے کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ ایک اور ڈاکٹر جن کا نام یورالوجی اور کارڈیالوجی کے ماہر کے طور پر دیا گیا تھا، ان کے تجربے کے حوالے سے فراہم کی گئی دستاویزات ان کے کارڈیالوجی اور یورالوجی کے شعبوں میں ہائوس جاب کرنے کے تجربے کے سرٹیفیکیٹ تھے۔ ہائوس جاب ایم بی بی ایس کے بعد نگرانی میں ایک سال کی لازمی تربیت ہے جس کے بعد ہی ایک ڈاکٹر جنرل فزیشن کے طور پر اپنی پریکٹس کا آغاز کر سکتا ہے۔ چناں چہ کوئی بھی ڈاکٹر ان شعبوں میں سپیشلسٹ کہلانے کا اہل نہیں ہو سکتا۔

اور وہ ڈاکٹر جن کے لائسنسز زائدالمعیاد ہو چکے تھے، کمپنی نے دستاویزی ثبوت فراہم کیے کہ ان کے لائسنس تجدید کے لیے ارسال کیے جا چکے ہیں اور وہ ڈاکٹرز کمپنی کے ساتھ مزید کام نہیں کر رہیں۔ تاہم ان لائسنسوں کی تصدیق کرنا مشکل ہے کیوں کہ ریگولیٹری اتھارٹی اس وقت غیر فعال ہے۔

ڈاکٹر سارا کہتی ہیں کہ طبی غفلت اور بے قاعدگی پاکستان میں بڑے پیمانے پر موجود ہے کیوں کہ اگر کسی کو کوئی تحفظات نہیں ہیں تو ہماری کوئی اخلاقیات نہیں ہیں، حتیٰ کہ بہترین ہسپتالوں میں بھی جان بچانے کے حوالے سے ضابطے موجود نہیں ہیں اور اگر کوئی بے قاعدگی ہوتی ہے تو مریض کہیں اپیل نہیں کر سکتا نا ہی وہ ہسپتالوں کے خلاف مقدمات جیت سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہی وجوہات کے باعث جب یہ ایپ تخلیق کی کیوں کہ میں خود ایک ڈاکٹر ہوں، میرے لیے نہایت اہم تھا کہ کسی قسم کی طبی بے قاعدگی نہ ہو۔ اسی وجہ سے میں غیرمعمولی احتیاط کے حوالے سے بات کر رہی تھی جب آپ نے یہ شناخت کیا کہ پرائمری کیئر کا مزید ایشو نہیں ہے اور یہ سیکنڈری یا ٹیرثری کیئر کا معاملہ ہے اور مریض کو ایک فزیکل ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔

مریض کے تناظر سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر سارا کی وضاحت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ صحت کہانی بلامعاوضہ سروس فراہم نہیں کرتی اور اگر مریض یہ سمجھ کر صحت کہانی پر موجودہ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرتا ہے کہ وہ سپیشلسٹ ہو گی لیکن اگر یہ ڈاکٹر مریض کو حقیقی سپیشلسٹ سے مشورہ کرنے کے لیے کہتی ہے تو وہ یقیناً فیس ادا نہیں کرے گا۔ اگرچہ کچھ ایسا ہی آف لائن فزیکل کلینکس پر بھی ہوسکتا ہے جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹرز مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مریض کم از کم آگاہ ہو گا کہ متعلقہ ڈاکٹر سپیشلسٹ نہیں ہے اور اس بناء پر اس کے ساتھ فراڈ نہیں ہوا۔

صحت کہانی اپنے پلیٹ فارم پر موجود ڈاکٹروں کے پی ایم ڈی سی اور پی ایم سی لائسنس نمبر فراہم کرتی ہے تاکہ ڈاکٹر کے بارے میں تصدیق ہو سکے کہ وہ کمیشن کے ساتھ منسلک ہے یا نہیں (مثال کے طور پر اس کا لائسنس فعال ہے یا زائد المیعاد ہو چکا ہے)۔ تاہم اسی شعبہ میں کام کرنے والی دیگر کمپنیاں اپنی ایپلی کیشن پر ڈاکٹروں کی کوالیفیکیشن کا اندراج کرتی ہیں تاکہ ڈاکٹر کے حوالے سے مریضوں میں اعتماد کا احساس پیدا ہو۔ تاہم معاوضہ وصول کرنے والی ایک سروس کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر کی کوالیفیکیشن کی تصدیق نہ کرے۔  ایپ پر لائسنس نمبر اور کوالیفیکیشن کے بارے میں معلومات فراہم کر دینے سے مریض کے متعلقہ ڈاکٹر کے حوالے سے تحفظات ختم ہو جاتے ہیں۔

قصہ مختصر، صحت کہانی ایک کاروبار ہے جس کا مقصد پیسہ بنانا ہے۔ وہ پیسہ بھی بنا رہے ہیں اور واضح بے قاعدگیوں کے باوجود اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے حوالے سے پرجوش منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔

کمپنی نے اولین کاروباری اختراع یہ کی ہے کہ اس نے ٹیلی ہیلتھ سینٹرز سے ٹیلی میڈیسن کلینک قائم کردئیے ہیں اور نرسوں کو تربیت دینے کے علاوہ سافٹ ویئر فراہم کیے ہیں تاکہ وہ اپنے کلینکس کو ٹیلی میڈیسن سنٹر کے طور پر اَپ گریڈ کر پائیں اور جب بھی کوئی مریض ان کے پاس آئے، ایک نرس اس کی پوری ہسٹری ڈیجیٹل سافٹ ویئر میں داخل کرے اور مریض کو مشورے کے لیے آن لائن ڈاکٹر سے منسلک کر دے۔

سارا کے مطابق سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صحت کہانی کے کلینک کام کر رہے ہیں اور اب بلوچستان میں پہلا کلینک کھولا جا رہا ہے، وہ اپنے مریض سے 50 سے 500 روپے تک وصول کرتے ہیں جس کا انحصار اس اَمر پر ہے کہ انہوں نے کس نوعیت کی مشاورت فراہم کی ہے۔ کمپنی کے لیے ماہانہ 350 مریضوں کا کلینک پر آنا ضروری ہے اور ہر کلینک کو آپریشنل رکھنے کے لیے 10 ہزار ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تین ذرائع سے آمدن حاصل کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو کلینک ہیں جہاں سے قریباً 20 فی صد آمدن ہوتی ہے،  اس کے علاوہ ہیلتھ ایجوکیشن کے فروغ کے حوالے سے بھی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں جس کے لیے تھرڈ پارٹیز کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں اور کمیونٹی میں ہیلتھ ایجوکیشن کے حوالے سے شعور بیدار کرتے ہیں جو ہماری کلینیکل سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔

سارا نے مزید کہا کہ  انہوں نے کلینکس کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ اپنا خرچہ خود اٹھا سکیں جس کے لیے ہر کلینک پر 350 مریضوں کا ماہانہ آنا ضروری ہے۔ ’’ہم بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں اور پہلے سال ہم نے سست روی سے ترقی کی اور دوسرے برس کے بعد سے ہمیں کسی بیرونی ادارے سے فنڈنگ کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ہم کلینکس کو اپنے طور پر ایک دیرپا یونٹ کے طور پر قائم کر سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کلینک اپنے طور پر اپنے اخراجات پورا کر سکتے ہیں لیکن ہمارے لیے کمپنی کو قائم رکھنا نہایت مشکل ہو گا جیسا کہ کلینیکل ریونیوز کا حصول ممکن نہیں کیوں کہ کلینیکل ریونیوز میں کیش کا آنا ضروری ہے۔ کیش کا بہائو نہایت محدود ہے اور ہم ڈاکٹر کی فی مشاورت پر 40 فی صد رکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر کا ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کیلئے موبائل ایپ لانچ کرنے کا فیصلہ

 ریونیو کا دوسرا ذریعہ تھرڈ پارٹیز کے ساتھ ان کی کلینیکل سرگرمیوں میں شریک ہو کر پروموشنل سرگرمیاں انجام دینا ہے۔ کلینکس اور پروموشنل سرگرمیاں مل کر کمپنی کے ریونیو کا ایک بڑا حصہ ثابت ہوتی ہیں اور تیسرا ذریعہ آن لائن ہیلتھ ایپلی کیشن کا ہے، جس کا کمپنی کے مجموعی ریونیو میں 30 فی صد حصہ ہے جسے سارا 50 فی صد تک لے جانے کا منصوبہ رکھتی ہیں جس کے لیے وہ آن لائن ایپلی کیشن کی جانب توجہ مبذول کر رہی ہیں اور اسے کمپنی کا سب سے اہم ریونیو کا ذریعہ بنا رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سوچا ہے کہ آئندہ دو سالوں میں ایپ سے 50  فی صد سے زیادہ ریونیو حاصل کریں، 20 فی صد صحت کی تعلیم اور 20 فی صد ریونیو کلینکس سے آئے۔

گزشتہ تین برسوں کے دوران صحت کہانی نے کلینکس اور صحت کی تعلیم کے اولین سال (2018) میں 92,000 ہزار ڈالر ریونیو حاصل کیا، دوسرے برس (2019) میں یہ بڑھ کر 159,000 ڈالر ہو گیا جب صحت کہانی نے اپنی ایپلی کیشن لانچ کی اور ریونیوز میں پہلے سال کی نسبت 72 فی صد اضافہ ہوا۔ رواں برس کمپنی 422,000 ڈالر ریونیوز حاصل کرنے کی امید کر رہی ہے جس میں بڑا کردار ہیلتھ کیئر ایپ کا ہے۔ اگر صحت کہانی یہ مشکل ہدف حاصل کرنے کے قابل رہتی ہے تو یہ گزشتہ برس کی نسبت 165 فی صد ترقی ہو گی۔

2018 میں کمپنی نے پانچ لاکھ ڈالر کی بنیادی سرمایہ کاری حاصل کی اور وہ پری سیریز اے رائونڈ میں بھی جانے کا منصوبہ رکھتی ہے، اس میں کچھ عجیب نہیں۔

صحت کہانی کی طرح کی کمپنی کے لیے ان کے پلیٹ فارم پر زیادہ ڈاکٹروں کا ہونا ہی تو ان کی کامیابی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے لائسنسز زائد المعیاد ہیں یا نہیں اور ان کی کوالیفیکیشن کیا ہے، جس کا مطلب صارفین کی ایک بڑی ٹارگٹ مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنا ہے جو ترقی کے لیے ضروری ہے لیکن جب ان کے لیے ترقی کرنے کا مطلب اس نوعیت کی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونا ہے تو کمپنی ممکنہ طور پر ٹائم بم بن چکی ہے اور یوں متعدد زندگیاں خطرات کی زد پر ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here