آپ تقریباً قہقہے سن سکتے ہیں، یہ مسکراہٹ اور قہقہے نفرت آمیزی اور خوداعتمادی سے بھرپور ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے پس پردہ کوئی وجہ ہوتی ہے، ملک بھر میں ڈرائنگ رومز میں ہونے والی گفتگو میں لوگ چیختے چلاتے ہیں اور اس واحد معاملے پر اپنے سر شرم سے جھکا لیتے ہیں کہ خواتین گریجوایشن کے بعد میڈیسن کی پریکٹس نہیں کرتیں۔
یہ تمام خواتین محض اس لیے ڈاکٹرز بنتی ہیں کیوں کہ وہ اپنے لیے اچھے رشتے چاہتی ہیں اور درحقیقت پریکٹس کرنے کے لیے اس قدر محنت نہیں کرتیں، اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں کہ یہ ہمارے ڈرائنگ روم کے جنگجو ہی ہیں جو سب سے پہلے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں جب ان کی بہو کہے کہ وہ بچے کا خیال رکھیں کیوں کہ اسے ایمرجنسی پر جانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو لڑکوں کے لیے کوٹہ مخصوص کرنا چاہئے تاکہ وسائل ضائع نہ ہوں، کیا کسی کو یہ فکر ہے کہ پاکستان میں شوہروں کی ایک بڑی تعداد شادی کے بعد کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے انکار کر دیتی ہے؟
ڈاکٹر سارا سعید کہتی ہیں کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو تھیں لیکن اب انٹراپرینیور بھی بن گئی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جو کمپنی بنائی ہے وہ ایسی گھریلو خواتین کو موقع فراہم کر رہی ہے جو مشکلات کے باوجود اب بھی اپنی پریکٹس جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
ذہین، پراعتماد، تربیت یافتہ اور پرجوش مزاج کی حامل ڈاکٹر سارا سعید ٹیلی ہیلتھ پرووائیڈرکمپنی’’صحت کہانی‘‘ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ہیں، صحت کہانی گھروں میں موجود خواتین ڈاکٹرز کے ذریعے طبی سہولیات فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔
