وزارتِ آئی ٹی اپنا بجٹ استعمال کرنے میں ناکام، قائمہ کمیٹی کا اظہار برہمی

637

اسلام آباد: سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن نے اس تاسف کا اظہار کیا ہے کہ وزارتِ آئی ٹی اپنا بجٹ استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔

کمیٹی کی سربراہ روبینہ خالد نے اس حقیقت پر اظہار برہمی کیا کہ وزارتِ آئی ٹی کو جاری کیے گئے فنڈز ابتدائی منصوبوں کے مطابق خرچ نہیں کیے گئے،  انہوں نے کہاکہ بسا اوقات بجٹ باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر اس بنا پر منظور کر دیا جاتا ہے کہ یہ وزارت کے اہداف کے حصول کے لیے استعمال ہو گا۔ بجٹ کی ڈیمانڈ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دیگر وزارتوں کا بجٹ کم کر کے آئی ٹی کے کچھ مخصوص منصوبوں کے لیے مخصوص کیا گیا لیکن اخراجات اب بھی مکمل طور پر نہیں کیے جا سکے۔

سینیٹر کلثوم پروین نے اس نکتہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کے مکمل استعمال نہ ہونے کے باعث متعلقہ افسروں کے خلاف انکوائری کی جانی چاہئے۔

کمیٹی کی سربراہ نے استفسار کیا کہ وزارت اس وقت کیوں ٹینڈر جاری کرتی ہے جب مالی سال اختتام کے قریب ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا پی بی آئی ٹی پنجاب کو سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کے حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کر پائے گا؟

آئی ٹی کی برآمدات 10 ارب ڈالر تک لے جانے، اسلام آباد میں 40 ایکٹر پر سافٹ وئیر سٹی بنانے کا فیصلہ

کیا آئی ٹی یو پاکستان کی ایم آئی ٹی بن سکتی ہے؟

وزارت آئی ٹی کے حکام نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ آئی ٹی وزارت نئی عمارت میں منتقل ہو چکی ہے اور اس بنا پر اب تک ہونے والے اخراجات کا اندازہ مرتب کیا جا رہا ہے۔حکام نے آگاہ کیا کہ وزارت کا 52 فی صد بجٹ استعمال ہو چکا ہے۔

روبینہ خالد نے کہا ،’’آپ گزشتہ آٹھ ماہ سے کیا کر رہے تھے؟ آپ کا رویہ مایوس کن ہے ، آپ کا جواب سن میرا خون کھول رہا ہے۔‘‘

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ آئی منصوبوں کے ملکی جی ڈی پی پر براہِ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں، اضافی فنڈز ایف آئی اے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر خرچ کرنے چاہئیں اور ایف آئی اے کو وزارت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔

کمیٹی کے ارکان نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) کے ریٹائر ملازمین کو پنشن کی عدم ادائیگی کے زیرِ التوا معاملات پر بھی بات کی۔

سینیٹر رخسانہ نے کہا کہ پی ٹی سی ایل ٹرسٹ کے فنڈز سے عدالتی مقدمات فائل کرتی رہی ہے جب کہ اس معاملے پر کمیٹی کی تجاویز پر اب تک عمل نہیں ہوا۔

وزارت کے حکام نے کہا کہ انہیں 21 جنوری کو دو ماہ کا وقت دیا گیا تھا لیکن اب بھی کچھ کام باقی رہتا ہے۔ اس پر چیئرپرسن نے کہا کہ اگر دیے گئے دو ماہ کے اختتام پر بھی حکام نے ایسے ہی ردِعمل کا اظہار کیا تو کمیٹی سخت کارروائی کرے گی۔

قائمہ کمیٹی نے پینشن کی عدم ادائیگیوں کے مقدمے میں ہونے والے اخراجات کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ کمیٹی کی سربراہ نے کہا کہ ان مقدمات کے حوالے سے ہونے والے پینشنرز کے قانونی اخراجات بھی انہیں واپس ادا کیے جانے چاہئیں۔

انہوں نے کہاکہ  یہ پینشنرز بوڑھے لوگ ہیں اور ان کے ساتھ اپنا حق مانگنے پر ہتک آمیز سلوک کیا جا رہا ہے۔

اجلاس کے دوران نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے بتایا کہ حکومت نے ایک جاب پورٹل بنانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں صوبائی اور وفاقی محکموں کی خالی اسامیوں کی تشہیر کی جائے گی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ جاپ پورٹل وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق جون 2020 کے اختتام تک مکمل ہو جائے گا۔

ٹیکنالوجی بورڈ  کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو ای آفسز کے قیام سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے  کہا کہ اس منصوبے پر اب تک چالیس کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں ، 17 وزارتوں نے ای آفس کے منصوبے کے حوالے سے این آئی ٹی بی کے طریقہ کار کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے، تاہم 11 وزارتوں نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا اور ای آفس کے قیام کے حوالے سے ان کی کارکاردگی زیرو رہی ہے جبکہ کئی وزارتیں ابھی تک غیر محفوظ ویب سائٹس استعمال کر رہی ہیں۔

قائمہ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ چار ہزار سرکاری ملازمین کے محفوظ ای میل آئی ڈی تیار کیے جاچکے ہیں۔

 

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here